محمد اسعدو دیگر کی ڈسچارج عرضداشت پر بحث مکمل‘12اکتوبر تک فیصلہ محفوظ

انسانی جان کی بلی دینے کے الزام میں گلبرگہ کی جیل میں قیدہے

ممبئی۔2 اکتوبر ( پریس ریلےز ) انسانی جان کی بلی دینے کے الزام میں ڈیڑھ سال تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد گزشتہ ۲ سالوں سے ضمانت پررہا گلبرگہ وملک کے دیگر مقامات سے تعلق رکھنے والے سات علماءکرام کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کے لئے سیشن کورٹ گلبرگہ میں داخل کی گئی اپیل پر سماعت مکمل ہو چکی ہے اورعدالت نے اپنا فیصلہ ۲۱ اکتوبر تک محفوظ کرلیا ہے ۔اب یہ فیصلہ ۲۱ اکتوبر کو آئے گا ، جس میں امید ہے کہ عدالت مذکورہ علماءکرام کو مقدمے سے ڈسچار ج کردے گی، کیونکہ ان علماءکرام کو محض تعصب اور قتل پر پردہ ڈالنے کے لئے پولیس نے گرفتار کرکے ان پر جھوٹا مقدمہ درج کیا تھا۔ یہ اطلاع آج یہاں جمعیة علماءمہاراشٹر کے لیگل سیل کے سربراہ ایڈووکیٹ تہور خان پٹھان نے دی ہے۔واضح رہے کہ مئی ۴۱۰۲ میں گلبرگہ ودیگر مقامات سے پولیس نے ۷علماءکرام کو توہم پرستی مخالف قانون کے تحت گرفتارکیا تھا اور ان پر خزانے کے لئے ایک بچی کی بلی دینے کا الزام عائد کیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان گرفتار شدگان میں اس بچی کے والد بھی تھے جس کی بلی دی گئی تھی۔ ایڈووکیٹ تہور خان پٹھان کے مطابق ۱۲مئی۴۱۰۲ میں ایک بچی کا اغواءہوا تھا جس کی گمشدگی کی رپورٹ اس کے والد نے اسی روزشہر کے فرحت آباد پولیس اسٹیشن میں درج کرادی تھی۔ اس واقعے کے ۵روز بعد یعنی ۶۲مئی کو اس بچی کی مسخ شدہ لاش اس کے ہی گھر کے عقب میں ملی اور والد نے اس کی فوری رپورٹ پولیس میں درج کرادی۔ اس کے بعد پولیس نے بجائے بچی کے اغواءکنندگان یا اسے قتل کرنے والوں کو گرفتار کرنے کے اپنے طور پر اسے بلی دینے کا معاملہ قرار دیتے ہوئے بچی کے والد سمیت گلبرگہ ودیگر مقامات کے ۷افراد کو گرفتار کرلیا۔ ان گرفتار شدگان میں ۴ حفاظِ کرام، ایک مفتی اور ایک دیگر شہری ہے۔ ابتداءمیں انہیں تفتیش کے نام پر غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا جس کے دوران ان گرفتار شدگان پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ ان میں سے جو ایک عام شہری تھا اس کے پیروں میں کیلیں ٹھونک دی گئی تھیںجس کیوجہ سے دورانِ حراست ہی اس کی موت واقع ہوگئی تھی جسے پولےس ہارٹ اٹےک کی موت قرار دیا تھا ،اس حراستی موت کی تحقیق کے لئے بھی جمعیة علماءمہاراشٹرکوشاں ہے۔ پولیس نے بقیہ ملزمین پر یہ دباو¿ ڈالا کہ تم لوگ اس حراستی موت کے بارے میں خاموش رہنا ورنہ بچی کی بلی دینے کا کیس تم سب پر تھوپ دیں گے۔ بالآخر وہی ہوا یعنی کہ جب ان ملزمین نے مذکورہ حراستی اموات کے بارے میں خاموش رہنے سے انکار کردیا تو بچی کو بلی دینے کا کے تحت بقیہ ۶ملزمین کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس مقدمے کی پیروی جمعیة علماءمہاراشٹر کررہی ہے، ایڈووکیٹ تہور خان پٹھان کے مطابق یہ پورا معاملہ نہایت ہی واضح ہے، پولیس کے پاس ان ملزمین کے خلاف پولیس حراست میں اقبالیہ بیان کے علاوہ اورکوئی ثبوت نہیں ہے ، اور پولیس حراست کا ثبوت دفعہ ۵۲کے تحت عدالت میں ناقابلِ قبول ہوتا ہے الّا یہ کہ ملزم پر مکوکا یا یو اے پی اے کی کوئی دفعہ لاگو کی گئی ہو۔ان ملزمین پر ایسی کوئی دفعہ لاگو نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ بچی کی والدہ کا ایک بیان عدالت میں ان ملزمین کے خلاف استعمال کیا گیا ہے، جس کے بارے بچی کی والدہ کا کہنا ہے کہ مجھ سے کنڑ زبان میں پہلے سے لکھے ہوئے ایک کاغذ پر یہ کہتے ہوئے دستخط لئے گئے تھے کہ اس پر دستخط کردو تو تمہارے شوہر رہا ہوجائیں گے، اس میں کیا لکھا تھا اس کے بارے میں بچی کی والدہ لاعلم ہیں اور جس کی پوری تفصیل ایک حلف نامے کی شکل میں وہ عدالت میں داخل کرچکی ہیں۔ جمعیة علماءمہاراشٹر کے صدر مولانا حافظ ندیم صدیقی نے اسے پولیس کی ناکامی اور تعصب قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے حراست میں ہوئی اموات کو چھپانے اوراپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ پورا ڈرامہ رچی ہے ۔ ہمارے وکلاءنے قانونی اور واقعاتی نکات پر اس معاملے کوسیشن کورٹ گلبرگہ میں ڈسچارج عرضداشت داخل کی تھی جس پر بحث مکمل ہو چکی ہے۲۱ اکتوبر تک کے لئے عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لےا ہے جہاں سے ہمیں قوی امید ہے کہ اللہ ہمیں اس مقدمہ میںکامیابی ضرور عطا فرمائے گا۔

Leave a comment