عمران خان کے کٹر حامی صحافی عمران ریاض کی گمشدگی میں ملٹری انٹیلیجنس ملوث ہے، آر ایس ایف

معروف اینکر پرسن اور سابق وزیراعظم عمران خان کے حامی عمران ریاض کو پاکستانی پولیس نے حراست میں لیا تھا،لیکن حکام انہیں عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔ان کی اہلیہ ارباب نے ان کی سلامتی کے حوالے سےتشویش کا اظہار کیا ہے۔

معروف اینکر پرسن اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامی عمران ریاض کو پاکستانی پولیس نے حراست میں لیا تھا، لیکن حکام انہیں عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (آریس ایف ) اور عمران ریاض کی اہلیہ ارباب نے ان کی سلامتی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستانی حکام صحافی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامی عمران ریاض کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔

کیا عمران ریاض کی گرفتاری کی مذمت کی جانا چاہیے؟:معروف ٹی وی اینکر اور یوٹیوبر عمران ریاض پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ان ہزاروں حامیوں میں شامل ہیں، جنہیں اس ماہ کے اوائل میں سابق وزیر اعظم کی گرفتاری اور پرتشدد مظاہروں کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔

اہلیہ اور بچے شدید پریشان

عمران ریاض کی اہلیہ ارباب عمران نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے شوہر کی سلامتی کے حوالے سے کافی پریشان ہیں۔ انہوں نے بتایا،”میرے شوہرکی گرفتاری بہت پریشان کن ہے۔ انہوں نے بے بس عوام اور سچائی کے لیے آواز بلند کی۔ میرے چار بچے اپنے والد کے لیے کافی فکرمند ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔ انہیں کئی مرتبہ پکڑ کر لے جایا جاچکا ہے۔ میں حکام سے ان کی فوراً رہائی کا مطالبہ کرتی ہوں۔‘‘

‘کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا‘

عمران ریاض کو مبینہ طورپر تشدد کے لیے اکسانے کے الزام میں 11مئی کو مشرقی شہر سیالکوٹ کے ہوائی اڈے سے حراست میں لیا گیا۔ انہیں پیر کے روز عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔ لیکن پھر کہانی نے حسب معمول موڑ لیا۔ حکام سماعت کے دوران ریاض کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے اور پنجاب پولیس کے سربراہ عثمان انور نے عدالت کو بتایا کہ انہیں صحافی کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے حکام کو خبردار کیا کہ اگر 47 سالہ صحافی کو کچھ بھی ہوا تو ”کسی کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔‘‘ پولیس نے 22 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کو بتایا کہ صوبے کے محکمہ پولیس کے کسی بھی شعبے کو عمران ریاض سے متعلق کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔

انگلیاں پاکستان کی ملٹری انٹیلیجنس کی جانب

پاکستان اس وقت ایک گہرے سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت والی موجودہ حکومت کے درمیان اقتدار کی کشمکش کی صورت میں پیدا ہوا ہے۔ اس سیاسی بحران کے سبب فوج اور عدلیہ بھی متاثر ہو رہی ہے۔ عمران خان نے حال ہی میں فوج پر ان کے خلاف کام کرنے کے الزامات لگاتے ہوئے اپنے زبانی حملے تیز تر کردیے تھے۔

https://p.dw.com/p/4RjlO



معاشرہپاکستان

عمران ریاض کی گمشدگی میں ملٹری انٹیلیجنس ملوث ہے، آر ایس ایف

24.05.202324 مئی 2023

معروف اینکر پرسن اور سابق وزیراعظم عمران خان کے حامی عمران ریاض کو پاکستانی پولیس نے حراست میں لیا تھا،لیکن حکام انہیں عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔ان کی اہلیہ ارباب نے ان کی سلامتی کے حوالے سےتشویش کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4RjlO

اشتہار

معروف اینکر پرسن اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامی عمران ریاض کو پاکستانی پولیس نے حراست میں لیا تھا، لیکن حکام انہیں عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (آریس ایف ) اور عمران ریاض کی اہلیہ ارباب نے ان کی سلامتی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستانی حکام صحافی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامی عمران ریاض کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔

کیا عمران ریاض کی گرفتاری کی مذمت کی جانا چاہیے؟

معروف ٹی وی اینکر اور یوٹیوبر عمران ریاض پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ان ہزاروں حامیوں میں شامل ہیں، جنہیں اس ماہ کے اوائل میں سابق وزیر اعظم کی گرفتاری اور پرتشدد مظاہروں کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔

اہلیہ اور بچے شدید پریشان

عمران ریاض کی اہلیہ ارباب عمران نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے شوہر کی سلامتی کے حوالے سے کافی پریشان ہیں۔ انہوں نے بتایا،”میرے شوہرکی گرفتاری بہت پریشان کن ہے۔ انہوں نے بے بس عوام اور سچائی کے لیے آواز بلند کی۔ میرے چار بچے اپنے والد کے لیے کافی فکرمند ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔ انہیں کئی مرتبہ پکڑ کر لے جایا جاچکا ہے۔ میں حکام سے ان کی فوراً رہائی کا مطالبہ کرتی ہوں۔‘‘

‘کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا‘

عمران ریاض کو مبینہ طورپر تشدد کے لیے اکسانے کے الزام میں 11مئی کو مشرقی شہر سیالکوٹ کے ہوائی اڈے سے حراست میں لیا گیا۔ انہیں پیر کے روز عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔ لیکن پھر کہانی نے حسب معمول موڑ لیا۔ حکام سماعت کے دوران ریاض کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے اور پنجاب پولیس کے سربراہ عثمان انور نے عدالت کو بتایا کہ انہیں صحافی کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے حکام کو خبردار کیا کہ اگر 47 سالہ صحافی کو کچھ بھی ہوا تو ”کسی کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔‘‘ پولیس نے 22 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کو بتایا کہ صوبے کے محکمہ پولیس کے کسی بھی شعبے کو عمران ریاض سے متعلق کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔

انگلیاں پاکستان کی ملٹری انٹیلیجنس کی جانب

پاکستان اس وقت ایک گہرے سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت والی موجودہ حکومت کے درمیان اقتدار کی کشمکش کی صورت میں پیدا ہوا ہے۔ اس سیاسی بحران کے سبب فوج اور عدلیہ بھی متاثر ہو رہی ہے۔ عمران خان نے حال ہی میں فوج پر ان کے خلاف کام کرنے کے الزامات لگاتے ہوئے اپنے زبانی حملے تیز تر کردیے تھے۔



عمران خان کی گرفتاری کے بعد پرتشدد مظاہروں کے بعد ان کے ہزاروں حامیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہےتصویر: W.K. Yousafzai/AP/dpa/picture alliance

ملٹری انٹیلیجنس کا کام لگتا ہے، آر ایس ایف

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآوٹ بارڈر (آر ایس ایف) کے نمائندے ڈینیل بیسٹرڈ نے کہا،”جب پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس نے عدالت میں سماعت کے دوران اغوا میں نامعلوم ایجنسیوں کا ذکر کیا تو اس کا صاف مطلب ہے کہ عمران ریاض کا اغوا واضح طور پر ملٹری انٹیلی جنس نے کیا ہے۔‘‘

صحافیوں کی اس تنظیم نے مزید کہا کہ آر ایس ایف سے بات کرنے والے خفیہ سفارتی ذرائع کے مطابق ٹی وی اینکر کی زندگی کے بارے میں حکومت کی خاموشی سے پتہ چلتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اغوا کے بعد ان کا بہت برا حال کیا گیا ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حراست میں ہی ان کی موت ہوگئی ہو۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی عمران ریاض کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ واقعات بین الاقوامی قانون کے تحت "جبری گمشدگی” کے مترادف ہیں۔ ایمنسٹی نے کہا کہ مخالف آوازوں کو سزا دینے کے لیے جبری گمشدگی کا استعمال کرنا پاکستان میں پچھلے کئی برسوں سے ایک تشویش ناک رجحان بن گیا ہے، لیکن اسے ختم ہونا چاہیے۔

ریاض لاپتہ، شریف کا جلاوطنی میں قتل

عمران ریاض کے وکیل اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ یہ گرفتاری آزادی اظہار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ریاض نے گزشتہ سال اپریل میں عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کی مذمت کرتے ہوئے عمران خان کے ان دعوؤں کی تائید کی تھی کہ فوج ان کی حکومت کو ختم کرنے میں شامل تھی۔