طنزومزاح: گالی اور گولی سے مسائل حل کرنے والوں کا بستر گول؟… تقدیس نقوی

دہلی اسمبلی کا الیکشن کیا ختم ہوا دہلی کی ساری رونق ہی ختم ہوگئی۔ دہلی حکومت نے بجلی فری کیا کی کچھ لوگ تو ووٹرس کو ہی فری کرنٹ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک وقت تو وہ آیا جب یہ امید کی جانے لگی تھی کہ ای وی ایم کے بٹن دبانے سے ہی ایسا کرنٹ نکلے گا کی ساری دہلی خاکستر ہوکر رہ جائے گی۔ بہت سے ووٹرس اپنے قائدین کے حکم کی تعمیل میں ای وی ایم کے بٹن بہت زور زور سے دباتے رہے مگر کسی کو نہ کرنٹ لگا اور نہ کوئی جھٹکا۔ الیکشن کے دن دہلی تو خاکستر ہونے سے بچ گئی مگر کچھ لوگوں کے دل ضرور جل کر خاک ہوگئے کیونکہ ای وی ایم کے بٹن نے یہ کام کرنے سے صاف منع کر دیا۔

ساتھ ساتھ اس تماشہ میں گالیوں کی ایسی پھلجھڑیاں چھوڑی گئیں جن کی آواز پڑوسی ملک تک پہنچائی گئی۔ جو زبان کل تک غیر پارلیمانی سمجھی جاتی تھی اسے اب پارلیمنٹ کے ذمہ دار ارکان دہلی کے گلی کوچوں میں استعمال کرکے اپنے دیش بھکت ہونے کا ثبوت دیتے پھر رہے تھے۔ گالیوں کے اس دنگل میں سب سے اچھی بات یہ تھی کہ اس میں پڑھے لکھے جاہل اور جاہل پڑھے لکھے نظر آرہے تھے گویا بڑے چھوٹے کی تفریق مٹا کر برابری کا سبق دیا جارہا تھا۔

مگر جب گالیوں سے بھی کچھ خاطر خواہ نتائج نکلتے نظر نہ آئے توکچھ مقامات پرگالیوں کے ساتھ گولی کے کرتب بھی دکھائے جانے لگے۔ گویا عوام کے مسائل کا حل اب صرف گولی ہی بچی تھی۔ اس میلہ میں کچھ ایسی دھمال مچی ہوئی تھی کہ لوگوں کو یہ پتہ ہی نہ چلا کب یہ گالیاں گولیوں میں بدل گئیں۔ کیونکہ میلوں، تہواروں میں ایسی ٹھائیں ٹھائیں کوئی نئی بات نہیں ہوتی، اس لئے پولیس بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تماشائی بنی ان مناظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔

جس دن اس الیکشن کے نتائج آئے اس دن سب سے زیادہ پریشان ہمارے میر صاحب تھے۔ نتائج سن کر انہیں الیکشن ریلیوں میں دی گئیں اک اک گالی یاد آرہی تھی۔ مگر وقت نکل چکا تھا، اب وہ خود ان لوگوں کو گالیاں دے رہے تھے جنھوں نے گالیاں دے کر یہ الیکشن ان کی پارٹی کو ہروایا ہے۔

ہم نے میرصاحب کا منہ لٹکا ہوا دیکھ کر ان کی دلجوئی کے لئے کہا، ’’میر صاحب دہلی کا الیکشن ہار جانے پر آپ اپنا دل چھوٹا نہ کیجیے، آپ کی اتنی بڑی پارٹی کے لئے اتنی چھوٹی سی دہلی کا الیکشن کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ بھئی آپ کی پارٹی نے تو اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی، مگر اس سیدھی سادی جنتا کو بھلا کون سمجھائے۔ چند مطلب پرست سیاستدانوں کے ورغلانے میں آسانی سے آگئی اور نتیجہ سامنے ہے۔ اب خود ہی بھگتے گی فری کے پورے پانچ سال۔ یوں بھی دہلی کی جنتا کو ہر چیز فری ملنے کی عادت سی ہوگئی ہے شاید اسی لئے اس بار الیکش میں گالی اور گولی بھی فری دی جا رہی تھی۔ ویسے میر صاحب آپ کی پارٹی کی قیادت کا اپنی پارٹی کی شکست کے اسباب کے سلسلے میں کیا کہنا ہے؟‘‘

میر صاحب اپنے اضمحال سے باہر نکلتے ہوئے سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے، ’’بھئی ان کا بھی یہی ماننا ہے کہ اس بار کا الیکشن گالی گلوچ اور گولی بازی میں کہیں پھنس گیا۔ ویسے گالی گلوچ آج کل کون نہیں کرتا۔ کیونکہ آج کل کی سیاست میں اگر کرنے اور کہنے کے لئے کچھ نہ ہو تو اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔ اب ہمارے عزیز دوست امریکی صدر ہی کو لے لیجیے۔ پورے چار سال اپنے مخالفین کے ساتھ گالی گلوچ کرتے ہوئے کتنی آسانی سے نکال دیئے۔ اسے کہتے ہیں سیاسی تدبر۔ بس ہماری عوام ابھی امریکیوں کی طرح میچیور نہیں ہوئی ہے اس لئے بھڑک اٹھی۔ ہم لوگوں نے گالی گلوچ پر کچھ زیادہ ہی بھروسہ کرلیا ورنہ بقولے۔ ’’مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا‘‘

’’چلیے مان لیا گالی گلوچ ہمارے ترقی پذیر معاشرے میں اعلی اقدار کے تحفظ کے لئے ناگزیر ہوچکا ہے مگر پھر اس کے ساتھ یہ گولی بازی کا تڑکا؟ اس سے پہلے الیکشنوں میں کھلے عام گولیوں سے جنتا کی ایسی خاطر تواضع تو کبھی نہیں دیکھی۔ ہم نے سنا ہے آپ کی پارٹی کی الیکشن کمپین کی باگ ڈور تو سینئر ذمہ دار حضرات کے پاس تھی جن کے پاس تو ملک میں موجود ہر گولی کا حساب رہتا ہے۔ پھر یہ سب کچھ محنت رائگاں کس طرح ہوگئی؟‘‘ ہم نے بھی میر صاحب کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے ان سے پوچھ ہی لیا۔

’’جناب گولی کی بات تو خیر چھوڑئیے، مگر ہاں اشتعال انگیز بولی جس کو آپ گالی سے تعبیر کر رہے ہیں کا تو ہماری پارٹی نے کھلے عام اعتراف کیا ہے جس کے سبب ہمیں ہار کا منہ دیکھنا پڑا‘‘۔ میر صاحب کے لہجے میں خجالت تھی۔

’’مگر میر صاحب زہر ایک بار فضا میں پھیل جائے تو اس کے اثرات کسی کی غلطی کے اعتراف کرنے سے ختم نہیں ہوتے۔ ہمارے سامنے ایک پوری نسل تربیت پا رہی ہے۔ گالی اور گولی دونوں کی ایک خرابی یہی ہے کہ یہ ایک بار نکل جائے تو واپس نہیں آتیں‘‘۔ ہم نے بھی میر صاحب کو پتلی گلی سے نکلنے نہ دیا۔

’’جناب اب غلطی ہم نے کی ہے تو اس کا ازالا بھی ہم ہی کریں گے‘‘ میر صاحب کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولے۔

’’کیا اسی طرح کی غلطی کا ازالا جیسے ایک آدھارکارڈ آفیسر نے کیا تھا؟‘‘ ہم نے میر صاحب کو دوسری طرح سمجھانے کی کوشش کی۔

’’کون سا آدھار کارڈ آفیسر؟‘‘ میر صاحب حیرت سے ہماری جانب دیکھ کر بولے۔

’’ہوا یوں کہ آدھار کارڈ افیسر کے دفتر میں ایک خاتون غصہ سے کانپتی ہوئی اپنے ہمراہ ایک کمزور سے مرد کو گھسیٹتی ہوئی داخل ہوئی اور چلاکر اس افیسر سے کہنے لگیں، ’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے آدھار کارڈ میں مجھے ‘بیوہ’ اور میرے شوہر کے نام کے ساتھ ‘مرحوم’ لکھنےکی‘‘۔ اور پھر اپنے خوف زدہ شوہر کا گریبان پکڑ کر آفیسر کے آگے کرتی ہوئی کہنے لگی، ’’تمہیں یہ میرے شوہر مرحوم نظر آرہے ہیں؟ تمہارے ہاتھ نہ کانپے اس کمزور سی جان کو مرحوم لکھتے ہوئے اور میرا جیتا جاگتا سہاگ اپنے قلم سے اجاڑتے ہوئے‘‘۔

آفیسر گھبرا کر کہنے لگا، ’’محترمہ حالت سے تو یہ شوہر نظر آرہے ہیں مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ آپ کے شوہر ہیں۔ بہر حال غلطی حکومت سے ہوئی ہے تو ٹھیک بھی وہی کرے گی‘‘ اور یہ کہہ کر میز کی دراز سے ایک پستول نکال کر خاتون کے شوہر کو ایک ہی گولی سے ڈھیر کر دیا ’’لیجئے ہوگئی غلطی ٹھیک‘‘ آفیسر نے خاتون کو آدھار کارڈ واپس کرتے ہوئے دلاسہ دیا۔

یہ ایک سینڈیکیٹیڈ فیڈ ہے ادارہ نے اس میں کوئی ترمیم نہیں کی ہے. – بشکریہ قومی آواز بیورو

Leave a comment