طلاق ثلاثہ پر حکومت اتنا بے چین کیوں؟

تحریر: محمد زاہد علی مرکزی کالپی شریف

پارلیمنٹ میں حکومت کی بے چینی، عجلت، ہمہ تن مصروفیت آخر کیوں؟ کیا واقعی حکومت مسلم خواتین کےلئے سنجیدہ ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو غیر مسلم ہی نہیں مسلم خواتین و حضرات بھی انھیں سمجھنے کے چکر میں گھن چکر بنے ہوئے ہیں مگر حقیقت کیا ہے اور اس قانون میں مسلم خواتین کی کامیابی مضمر ہے یا تباہی؟ آئیے ان میں چند سوالوں کے جوابات تلاشتے ہیں.

"جن سنگھ” کا قیام 21 اکتوبر 1951 ء میں شیام پرساد مکھرجی کے ذریعے کانگریس کے مقابلے میں عمل میں آیااور 1977 تک یہ "جن ستا پارٹی” کے نام سے جانی گئ، اس کی آئڈیا لوجی” ہندو نیشنل ازم” رہی 1980 میں اس کی شمولیت "بھارتیہ جنتا پارٹی” میں ہوئی جو اب تک 38/ سال کی عمر طے کر چکی ہے اور انکی آئیڈیا لوجی "ہندو، ہندوتوا” ہی ہے ساتھ ہی اس پارٹی نے اپنے اہداف متعین کر رکھے تھے اور ان اہداف میں کہیں بھی گنگا جمنی تہذیب کی روایات کو آگے بڑھانے کے متعلق کوئی نکتہ، نظریہ اور مسلمانوں کے ترقی دینے جیسے کوئی اصول و ضوابط نہیں تھے، کبھی” رتھ یاترا” کے ذریعے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی "بابری مسجد” کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش خلاصہ یہ کہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے متعلق جو بھی سوچا گیا وہ بھلائی کے علاوہ ہی رہا ہے.

انڈین قانون کے مطابق دفعہ 14 اور 15 کے علاوہ دفعہ 26 اور 29 میں واضح طور پر یہ لکھا ہے کہ” ہر دھرم کے لوگ اپنی روایات کے مطابق اپنے اپنے مذہب پر عمل کریں گے اور ان پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں ہوگی” یکساں سول کوڈ پر بھی اسی لیے آدی واسی اور سکھوں کے علاوہ کئی سنگٹھنوں نے احتجاج درج کرایا اور اسے قانونی اعتبار سے غلط اور ماننے سے انکار کرنے کا اعلان کیا ہے.

مسلمانوں کو دیگر قوموں کے دلوں سے نکالنے کی سازش

اصل میں حکومت یہ بل لاکر یہ دکھانا چاہتی ہے کہ مسلمان دیش کے "سنودھان” اور عدلیہ پر بھروسا نہیں کرتے، حکومت کو یہ قطعی طور پر معلوم ہے کہ مسلمان اپنے قرآن و احادیث کے علاوہ کچھ بھی نہیں تسلیم کریں گے. تو ہمیں یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ مسلمان تو اپنے مذہب کو دیش سے الگ سمجھتے ہیں اور عوام کے دلوں سے انکی محبت ختم ہو جائے گی پھر جو چاہو ان پر تھوپ دو نہ کوئی سنگٹھن آواز اٹھا پائے گا اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر اسے کوئی بھی برا کہے گا،” سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے” مگر بھلا ہو اس دیش کے جیالے سانسدوں کا جنھوں نے مکمل تیاری کے ساتھ اس پری پلان بل کی حقیقت عوام کے سامنے کھول کر رکھ دی، قابل مبارک ہیں” رنجیتا رنجن” محترم سلیم cpim اور ہر دلعزیز اسد الدین اویسی وغیرہ جنھوں نے” دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیا”کچھ نکات حاضر ہیں ملاحظہ فرمائیں.

(1)ہندو میرج ایکٹ میں طلاق ہونے پر ایک سال کی سزا ہے مسلم کیا اس دیش کے ناگرک نہیں کہ انھیں تین سال کی سزا؟؟؟؟
(2)شوہر جیل میں ہوگا تو عورت کو کھانا خرچہ کون دیگا؟؟ حکومت چاہتی ہے کہ آدمی جیل میں مرے اور بیوی بچے گھر میں بھیک مانگیں یا جسم فروشی کریں یا پھانسی پر ساموہک آتم ہتیا؟؟؟؟

(3)چلو اگر دونوں زندہ رہے تو شوہر کے تین سال بعد گھر آنے پر کیا شوہر اسے رکھے گا؟؟

(4)اگر عورت دوسری شادی کرنا چاہے تو کیا کوئی شریف آدمی ایسی عورت کو جو اپنے آدمی کو جیل کرا چکی ہو اس سے شادی کرے گا؟؟

(5)دوسرے یہ کہ سپریم کورٹ کے مطابق تین طلاق نہیں مانی جائے گی تو یعنی طلاق کے بعد بھی بدستور میاں بیوی رہیں گے تو کیا دونوں قانونی طور پر کہیں اور شادی کرنے کے مجاز ہونگے؟؟

(6)جب یہ شادی Ambuja Cement سے بھی زیادہ مضبوط ہے تو دونوں ایک دوسرے کو ٹھکانے لگائے بغیر کیسے رہ پائیں گے، نتیجہ ایک دوسرے کے قتل کی تیاری رہے گی یہ اچھا ہے یا برا؟؟؟

(7)ایک قانون کہتا ہے کہ ہر مذہب والا اپنے دھرم کی ادائیگی پر آزاد ہے اور دوسرا قانون کہتا ہے نہیں تو سنودھان کی اوقات کیا رہ جائے گی؟؟؟

(8)شادی ٹوٹی نہیں تو کیا وہ آدمی جو سالوں جیل میں رہا وہ عورت کو پراپرٹی دے گا؟ جبکہ قانونی اعتبار سے عورت پراپرٹی کی حق دار، مقدمہ ہوگا، لڑائی جھگڑا بڑھے گا کیا یہ مسلم خواتین کےلئے بہتر ہے؟؟؟

(9)حکومت اگر واقعی مسلم خواتین کی طرف دار ہے تو جب انکا شوہر جیل میں ہو 20 ہزار روپیہ ماہانہ بھرن پوشن کے لیے دیگی؟؟؟

(10)حکومت مسلمانوں کے گھر، پریوار، شریعت، اسلام سبھی کو اسی ایک بل سے” کل”(kill) کرنا چاہتی ہے.

(11)اگر واقعی حکومت سنجیدہ ہے تو ہم گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ مسلم علما پر چھوڑ دے اور وہ جو فیصلہ کردیں اسے قانونی شکل دیکر جاری کردے.

نوٹ ______حکومت ہند سے ہم اچھائی کی امید رکھتے ہیں اور امید ہے وہ اچھا کریں گے کیونکہ

ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا

Leave a comment