خالصتان حامی امرت پال سنگھ کی بڑھتی مقبولیت سے انڈین سکیورٹی ادارے پریشان کیوں ہیں؟

گذشتہ جمعرات کو امرتسر کے نزدیک اجنالہ قصبے کے پولیس سٹیشن کا تلوار اور لاٹھیوں سے مسلح سکھوں کے ایک ہجوم نے محاصرہ کر لیا۔ان کا مطالبہ تھا کہ پولیس لو پریت سنگھ نام کے ایک مبلغ کو رہا کرے جنھیں اغوا اور ایذا رسانی کے ایک معاملے میں پولس نے گرفتار کر رکھا تھا۔

اس ہجوم کی قیادت نوجوان ریڈیکل سکھ رہنما امرت پال سندھو کر رہے تھے۔ جمعے کو پولیس نے لو پریت سنگھ کو بے قصور قرار دیتے ہوئے جیل سے رہا کر دیا۔ اس واقع کے بعد دلی اور انڈین پنجاب میں پولیس اور خفیہ ادارے چوکس ہیں۔

امرت پال سنگھ کی مقبولیت پنجاب میں تیزی سے بڑھی ہے لیکن تازہ واقع کے بعد ان کے قد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔پولیس اور خفیہ ادارے امرت پال کے بیانات میں خالصتان کے نظریے کی بو محسوس کر رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق خفیہ ادارے ان کی سرگرمیوں پر کئی مہینے سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔ خالصتان حامی نوجوان مبلغ امرت پال کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت پر سکیورٹی اداروں کو تشویش ہے۔

انتیس سالہ امرت پال سنگھ سندھو دبئی میں اپنے والد کے ساتھ ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ پہلی بار وہ اس وقت نظروں میں آئے جب دو برس قبل نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک چل رہی تھی۔

وہ اداکار اور سیاسی کارکن دیپ سدھو کی تنظیم ’وارث پنجاب دے‘ سے وابستہ ہو گئے۔ یہ تنظیم پنجابیوں کے حقوق کے لیے ایک پریشر گروپ جیسا تھا۔ اس وقت تک نہ ان کی مونچھ اور داڑھی تھی اور نہ ہی وہ پگڑی باندھتے تھے۔جب دیپ سدھو کی ایک کار حادثے میں موت ہوئی اور امرت پال سنگھ دبئی سے واپس آئے تو ان کے داڑھی بھی تھی اور پگڑی بھی۔

انھوں نے اس تنظیم کی صدارت اپنے ہاتھوں میں لی اور خالصتان کے سابق رہنما بھنڈرانوالہ کے گاؤں میں دستار بندی کی تقریب منعقد کی۔امرت پال نے اس موقع پر بھنڈرانوالہ کے طرز کا لباس پہن رکھا تھا اور ان کے ہزاروں حامی خالصتان کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔

’وارث پنجاب دے‘ کے بانی آنجہانی دیپ سدھو کے گھر والے آج تک حیرت زدہ ہیں کہ امرت پال کو اچانک کون لایا اور وہ کس طرح ’وارث پنجاب دے‘ کے صدر بن گئے۔اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے امرت پال نے کہا تھا کہ ’میں بھنڈرانوالہ سے ترغیب حاصل کرتا ہوں۔ میں ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلوں گا۔’میں ان کی طرح بننا چاہتا ہوں جو ہر سکھ چاہتا ہے لیکن میں ان کی نقل نہیں کر رہا، میں تو ان کے قدموں کی دھول بھی نہیں ہوں۔‘

انھوں نے اس موقع پر مزید کہا تھا کہ ’ہم اب بھی غلام ہیں۔ ہمارا پانی لوٹا جا رہا ہے، ہمارے گروؤں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔پنجاب کے نوجوانوں کو پنتھ (مذہب) کے لیے قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘خبر رساں ایجینسی پی ٹی آئی کے مطابق اس موقع پر امرت پال سنگھ نے کہا تھا کہ ’سدھو جیسے مذہب کی خدمت کرنے والے لوگ حادثے میں نہیں مرتے۔ ہمیں پتہ ہے کہ ان کی موت کیسے ہوئی اور انھیں کس نے مارا‘۔

پی ٹی آئی کے مطابق انھوں نے اندرا گاندھی کے قتل کا حوالہ دے کر وزیر داخلہ امت شاہ کو مارنے کی دھمکی دی تھی لیکن امرت پال نے اس کی واضح الفاظ میں تردید کی ہے کہ انھوں نے کبھی ایسی کوئی دھمکی نہیں دی ہے۔

امرت پال روانی کے ساتھ پنجابی، انگریزی اور ہندی بولتے ہیں۔ وہ اب بھنڈرانوالے کے طرز کا ہی کپڑا پہنتے ہیں اور ان کے آس پاس کئی مسلح بندوق بردار ہوتے ہیں۔ 29 سالہ خود ساختہ مبلغ جگہ جگہ دستار بندی کی تقریب کرتے ہیں۔انھوں نے ریاست میں منشیات کے خلاف مہم چلا رکھی ہے۔ جمعرات کو پولیس سٹیشن پر یلغار سے پہلے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے امرتپال سنگھ نےکہا کہ ’اگر کوئی ہندو راشٹر قائم کرنے کی بات کر سکتا ہے اور اس کے حق میں نعرے لگا سکتا ہے۔ اگر لوگ کمیونزم سے ترغیب پا کرکمیونسٹ ریاست قائم کر سکتے ہیں، تو پھر ایک پرامن خالصتان کی تمنا کو جرم کیوں قرار دیا جائے۔‘

خالصتان کے حق میں وہ پہلے بھی اس طرح کا بیان دے چکے ہیں۔ وہ ماضی میں کئی بار اشتعال انگیز بیانات دے چکے ہیں۔ لیکن جمعرات کو اجنالہ میں امرت پال سنگھ کے مسلح حامیوں کا پولیس سٹیشن پر حملہ اور اس کے بعد لوپریت کے خلاف سارے کیسز کی واپسی اور ان کی رہائی نے امرت پال کا قد بہت بڑھا دیا ہے۔ ان کی مقبولیت اور اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔

میڈیا میں سکیورٹی کے ایک اعلیٰ اہلکار کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ’ابھی وہ نکتہ نہیں آیا جب خطرے کی گھنٹی بجا دی جائے لیکن یہ اچھی علامت کے آثار نہیں ہیں۔ بالکل اسی طرح بھنڈراوالے کا عروج ہوا تھا ۔ ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ گذشتہ مرتبہ کی طرح اسے نہ تو پاکستان کی حمایت حاصل ہے اور نہ ریاست میں انتہا پسندی کی طرف مائل ہونے کا کوئی رحجان نظر آتا ہے۔‘
جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے کہا ہے کہ ’آج ہم آگ سے کھیل رہے ہیں اسے ہمیں ابتدا میں قابو میں کر لیناچاہیے۔ آج امرت پال کی حمایت زیادہ نہیں ہے لیکن کل یہ صورتحال نہیں ہو گی۔‘

معروف صحافی ہرتوش سنگھ بل کا بھی یہی کہنا ہے کہ ’پولیس نے امرت پال سنگھ کے اشتعال انگیز بیانات اور ان کے مسلح حامیوں کے خلاف کارروائی نہ کر کے اپنے لیے مستقبل کے حالات پیچیدہ کر لیے ہیں۔ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پولیس نے امرت پال سنگھ سے ابھی تک ایک بار بھی کسی معاملے میں پوچھ گچھ نہیں کی ہے۔

پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔ اس کی قومی سیاست میں بڑی تمنائیں ہیں۔ پنجاب میں بھنڈراوالے کی خالصتان تحریک پر گہری نظر رکھنے والی صحافی نیرجا چودھری اپنے کالم میں لکھتی ہیں کہ ’اگر مذہبی کشیدی جاری رہی تو سکھ برادری تقسیم ہو جائے گی اور ہندو زیادہ غیر محفوظ محسوس کریں گے۔ اس کا فائدہ بی جے پی کو ہو گا۔‘

خالصتان تحریک کا خطرہ قومی سطح پر ہندوؤں کو بی جے پی کے پیچھے متحد کر سکتا ہے۔ صورت حال جو بھی ہو، امرت پال سنگھ سندھو کے اچانک غیر معمولی عروج نے امرتسر سے لے کر دلی تک سکیورٹی اداروں اور سیاسی جماعتوں، سبھی کو سرگرم کر دیا ہے۔

شکیل اختر بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی