جمہوریت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے از : پرویز نادر

25/مئی 2020کو جمہوریت کے سب سے بڑے نام نہاد دعویدار امریکہ میں نسلی تعصب کی بناء پر پولس نے امریکہ کی ریاست منی سوٹا کے شہر منیاپولس میں ایک سیاہ فام شہری 46 سالہ جارج فلائیڈ کو اپنے گھٹنے تلے دباکر قتل کردیا اس واقعے کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے منیاپولس سے لیکر پورے ملک میں

احتجاج پھوٹ پڑے خاطی پولس اہل کاروں کا مواخذہ کرنے کے بجائے انسانیت کے سب سے بڑے نام نہاد دعویدار ڈونالڈ ٹرمپ نے پولس کو زیادہ اختیارات دیکر احتجاج کو دبانا چاہا اور شہر میں احتجاج زدہ علاقوں میں فوج تعیناتی کی دھمکی دے ڈالی اس کے بعد لوٹ مار اور بد امنی کا وہ کھیل شروع ہوا کے عوام ٹرمپ کا چیلینج قبول کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس تک جا پہنچی اور ان کے غصے کے آگے ٹرمپ کو بھیگی بلی بن کر روپوش ہونا پڑا امریکہ کے اندر کا کھیل باہر ممالک میں بھی اس کی ساکھ نا بچا سکا اسی لیے پورپ کے کئی بڑے شہر اور ممالک میں امریکی حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے

دوسر واقعے میں امریکہ اس وقت دہل کے رہے گیا جب صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے حریف جوئے بائیڈن نئی میقات کے لیے صدر منتخب ہوگئے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ نے نتائج کو مسترد کردیا اس کے بعد دسمبر کے آخر اور جنوری کے اوائل میں پھر بد امنی کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں ٹرمپ کے حامیوں نے توڑ پھوڑ کے ساتھ کانگریس کی صدارتی عمارت پر قبضہ کرلیا یاد رہے کہ نسلی امتیاز و تعصب اور صدارتی کرسی کی کھینچا تان کا تماشہ دنیا میں جمہوریت کے سب سے بڑے دعوے دار امریکہ میں ہوتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا کی سب سے بڑی کہلائے جانے والی جمہوریت ہندوستان کی ہے اسی ہندوستان میں حکمران پارٹی بی جے پی نے ستمبر کے تیسرے ہفتے میں پارلیمان میں ایک زرعی اصطلاحی بل پیش کیا جس کو جلد ہی قانونی حیثیت دےدی گی۔

ان میں ایک ’زرعی پیداوار تجارت اور کامرس قانون 2020‘ ہے جکہ دوسرا ’کسان (امپاورمنٹ اور پروٹیکشن) زرعی سروس قانون 2020‘ ہے جس میں قیمت کی یقین دہانی اور معاہدے شامل ہیں۔ تیسرا قانون ’ضروری اشیا (ترمیمی) قانون‘ ہے۔
جس کو کسان تنظیموں نے کسانوں کے حق میں موت کا پروانہ قرار دیا اور دہلی میں اجازت نا ملنے کی وجہ سے دہلی ہریانہ سرحد سنگھو بارڈر پر احتجاج شروع ہوگیا جس میں دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے مختلف صوبوں سے کسان جمع ہوتے چلے گئے
حکمران پارٹی کی مختلف اسکیمیں اور دھمکیوں بھرا لہجہ کسانوں کے جوش کو ٹھنڈا نا کر سکا اور 26جنوری2021کے آتے آتے کسان تنظیموں اور حکمران جماعت کے 11بات چیت کے دور ناکام ہوگئے اس کے بعد جنوری کو کسان تنظیموں نے ایک عظیم الشان ٹریکٹر ریلی احتجاج کا اعلان کیا جس میں مصدقہ

اطلاعات کے مطابق ایک لاکھ سے زائد ٹریکٹر نے حصہ لیا یہ سب اس وقت ہورہا تھا جب 26جنوری یوم آزادی کے موقع پر جشن کی تیاری زوروں پر تھی اور ملک کے وزیراعظم لال قلعہ دہلی سے ساری دنیا میں جمہوریت کا راگ الاپنے والے تھے اسی دن عوام پر جبراً لادے گئے سیاہ قوانین کے خلاف عوام کا غصہ پھوٹ پڑا اور وہ نا صرف دہلی میں داخل ہوئے بلکہ لال قلعہ میں گھس کر اپنا پرچم بھی لہرادیا اس دوران دارالحکومت دہلی کے مختلف علاقوں میں پولس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں وہی لال قلعہ پر تعینات فورس اور مظاہرین کے بیچ زبردست ٹکراؤ ہوا جس میں کئی کسان اور پولس والے زخمی ہوئے سوال یہ ہیکہ آخر دو ماہ سے چلنے والے

اس پر سکون احتجاج نے پر تشدد شکل کیسے اختیار کرلی محرکات اور اسباب چاہے جو بھی ہو اس کی زمیداری صرف اور صرف حکومت پر عائد ہوتی ہے جو عوام کے منتخب شدہ حکمران ہیں جمہوریت کی رو سے وہ عوام کے فوائد کو ترجیح دینگے جس کو عوام کی اکثریت اپنے لیے نقصاندہ سمجھتی ہے آخر کار کسی بھی حکومت کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ جبرًاور ظلم کے راستوں سے گزر کر قوانین وضع کرے اور یہی وہ حکومت ہے جس نے 2019 میں بدنام زمانہ کالے قوانین این پی آر، این،آر،سی اور سی ،اے،اے یکے بعد دیگرے نافذ کرنے کی کوشش کی جو سراسر مزہب اور نسل کی بنیاد پر ملک میں تقسیم اور فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی مذموم کوشش تھی جس کے بعد ملک کے طول وعرض میں احتجاج شروع ہوئے اور فروری 2020میں شمال مشرق دہلی میں بد ترین فسادات پھوٹ پڑے جس میں کم از کم 55لوگ مارے گئے تقریباً 200 لوگ شدید زخمی ہوئے اور سیکڑوں بے گناہ افراد کو جیلوں میں قید کیا گیا نام نہاد جمہوریت کا سبق دنیا کو پرھانے والے ہی

انسانیت کے دشمن ہے اور اسی جمہوریت کے پیچھے اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل چاہتے ہیں اسی لیے اب جمہوریت اور اسی طرح کی انسانوں کی افترا کردہ مختلف نظریات سے دنیا کی با شعور عوام تنگ آ چکی ہے اب ضرورت ہے کہ انسانیت نواز اور خدائی شریعت سے انسانوں کو نا صرف متعارف کرایا جائے بلکہ اس کے ثمرات و فیوض سے بھی واقف کرایا جائے