ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا آہ! مفتی عبدالمغنی صاحب مظاہری رحمۃ اللہ علیہ

از قلم : محمد شعیب ناندیڑ

اللہ رب العزت کا اصول ہے کل نفس ذائقۃالموت کہ ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اس دنیائے آب و گل میں بہت سے انسان آئے اور چلے گئے اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ ہر ایک انسان کو اپنے متعینہ وقت پر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں لوٹنا ہے لیکن کچھ لوگ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ان کے کام خدمات اور ان کی شخصیت ایک زمانہ تک یاد رہتی ہے انہی شخصیات میں سے تلنگانہ و آندھرا پردیش کے ایک ممتاز نمایاں مدبر مفکر شخصیت مفتی عبدالمغنی صاحب مظاہری رحمۃ اللہ علیہ ہے 8 محرم الحرام1443ھ مطابق 18اگسٹ 2021 بروزبدھ (چہار شنبہ) کی شب 3 بجے اس دار فانی سے ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ کہہ کر کوچ کر گئے

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سب ہی آئے ہیں مرنے کے لئے
انا للہ وانا الیہ راجعون

حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق علمی گھرانے سے ہے آپ کے والد بزرگوار حافظ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے ہی متقی پرہیزگار تھے اور اہل اللہ کی صحبت میں اکثر رہا کرتے تھے آپ کے والد ہردوئی میں محی السنہ شاہ ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں خدمت میں رہا کرتے تھے حضرت مفتی صاحب اور ان کے برادران بھی یہیں رہا کرتے تھے حضرت شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ کا مزاج ان کی تربیت کا اثر پورے خاندان پر ہوا اور آج بھی نظر آتا ہے
حضرت مفتی صاحب کی جائے پیدائش و تعلیم

حضرت مفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت 1955 ہردوئی میں ہوئی چونکہ آپ کے والد ماجد مدرسہ فیض العلوم کے ذمہ دار تھے اس وجہ سے حضرت محمد شاہ ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ذمہ داروں کے بچے اسی مدرسے میں نہیں پڑھ سکتے ( جہاں پر ذمہ دار پڑھاتے ہیں) اس وجہ سے آپ کو عالمیت کے لئے ہردوئی بھیج دیا گیا وہاں پر ابتدائی تعلیم حاصل کر کے حضرت مولانا صدیق صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ عربیہ باندہ ہتھوارہ میں تشریف لائے پھر یہاں پر درجات وسطی کی تکمیل کی اس کے بعد مدرسہ مظاہرعلوم سے سند فضیلت 1979 ء حاصل کی سند فضیلت کے بعد وہیں ایک سال تکمیل افتاء کیا فراغت کے بعد 1980 ء میں آپ کا تقرر مدرسہ فیض العلوم سعیدآباد میں ہوا کچھ ہی مہینے گزرے تھے کہ آپ کو ایک بڑی ذمہ داری دی گئی کہ اڑیسہ برہم پور میں ایک مدرسہ قائم کرنا ہیں چنانچہ حضرت نے بڑی محنت و مشقت کے بعد مدرسہ کاشف العلوم کی بنیاد ڈالی اس مدرسہ سے ہزاروں حفاظ بن کر نکلے ہیں الحمدللہ یہ مدرسہ آج بھی آباد ہے اور چل رہا ہے یہ آپ کی دین ہیں پھر اس کے بعد 1983ء میں کاماریڈی میں آپ نے امامت وخطابت تقریبا ڈیڑھ سال کی پھر آپ دوبارہ مدرسہ فیض العلوم سعیدآباد بلا لیے گئے ایک طویل عرصے تک خدمت کرتے رہے پھر 1992ءاڑیسہ کے مدرسہ جامع العلوم میں 6ماہ کا وقت گزارا اس کے بعد مدرسہ فیض العلوم تشریف لائے اور تشنگان علوم نبوت کی پیاس بجھاتے رہے اسی دوران آپ کو دو مرتبہ نائب ناظم کے عہدے سے سرفراز کیا گیا اور آپ جب بھی نظامت کے عہدے پر فائز رہے آپ نے شعبہ عالمیت کا قیام عمل میں لایا جو کہ آپ کے عہد انتظام میں کافی مقبول رہا

حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات وکمالات

حضرت مفتی صاحب رحمتہ حضرت مفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ مجلس دعوت الحق ہردوئی سے منسلک رہے آپ نے اس کے لیے بڑی قربانیاں دی اپنے علاقے میں اس کی شاخوں کا قیام عمل میں لایا اور آپ کی شخصیت اسی پلیٹ فارم سے متعارف ہوئی پھر آپ نے مدرسہ 1993ءم میں مدرسہ سبیل الفلاح کا قیام عمل میں لایا اس مدرسہ کے فارغین نہ صرف تلنگانہ و آندھرا بلکہ پورے ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں آپ آخر تک اس ادارے کے ناظم رہے حضرت مفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو سماجی فلاحی کاموں سے بڑی دلچسپی تھی اس کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار رہتے تھے اور جہاں قوم کا فائدہ مقصود ہو وہاں بغیر کسی عذر و ملامت کے پہنچ جاتے اور قوم کا کام کراتے ابھی حالیہ 2020 حیدرآباد کے سیلاب میں بڑی انتھک کی محنت کی آپ جمیعت علماء گریٹر حیدرآباد کے صدر محترم تھے اور فرقہ ضالہ کی سرکوبی کیلئے تحفظ ختم نبوت سے جڑے ہوئے تھے اس کے تلنگانہ و آندھرا کے نائب صدر تھے بقول حضرت مولانا عبدالقوی صاحب جنازہ کے وقت ایک نوجوان حضرت مولانا عبدالقوی صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہم فلاں گاؤں سے آئے ہیں ہم پہلے قادیانیت قبول کر چکے تھے حضرت مفتی عبدالمغنی صاحب مظاہری کی توجہات اور کوشش سے پھر

دوبارہ مسلمان ہو گئے آپ تلنگانہ و آندھرا کی مؤقر تنظیم مجلس علمیہ کے رکن تاسیسی تھے آل انڈیا بیت الامداد کے سرپرست تھے ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد کے سرپرست تھے آپ بہت سے تنظیموں مدرسوں کے سرپرست و ٹرسٹی تھے آپ اپنے خاندان میں بھی بڑے تھے جب بھی کوئی تقریب یا پروگرام ہوتا آپ اس کی سرپرستی فرماتے آپ رحمتہ اللہ علیہ میں ایک خصوصی خوبی یہ بھی تھی کہ آپ اپنے دل میں کسی کے لیے کینہ ،بغض، حسد، برائی نہیں رکھتے یوں تو آپ کو اپنے تمام بزرگوں سے تعلق رہا خصوصا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پہلا

اصلاحی تعلق قائم کیا پھر حضرت حکیم اختر صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق قائم کیا حضرت نے آپ پر اعتماد کرتے ہوئے خلافت سے نوازا اسی طرح تملناڈو کی عظیم شخصیت مفتی سعید احمد صاحب پرنامبٹ نےبھی خلافت سے نوازا حضرت اور بھی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے بالآخر یہ عظیم شخصیت 8محرم الحرام 1443 ھ مطابق 18 اگسٹ 2021 بروز بدھ (چہارشنبہ) کی شب 3 بجے اپنے مالک حقیقی سے جا ملی ہم اللہ رب العزت سے دعا گو ہے کہ اللہ تبارک و تعالی مفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے آمین