احتجاج کا حق کسی بھی وقت اور کہیں بھی نہیں دیا جا سکتا: سپریم کورٹ

سی اے اے مخالف شاہین باغ احتجاج سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی سے عدالت عظمیٰ کا انکار
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف کئی مہینے تک چلنے والے احتجاج سے متعلق اپنے پہلے کے د ئے گئے فیصلے پر نظر ثانی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ میڈیا کی پورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے کہا کہ عوامی مقامات پر دوسروں کے حقوق طویل احتجاج کر کے متاثر نہیں کیے جا سکتے۔ عدالت عظمی کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے کا حق کبھی بھی اور کہیں بھی نہیں دیا سکتا۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آئین احتجاج کرنے اور عدم اطمینان کا اظہار کرنے کا حق دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ شرائط بھی عائد ہوتی ہیں۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ہم نے سیول اپیل میں نظرثانی کی درخواست اور ریکارڈ پر غور کیا ہے۔ ہمیں اس میں کوئی غلطی نہیں ملی ہے۔ جسٹس ایس کے کول، جسٹس انیرودھ بوس اور جسٹس کرشنا مراری کی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا۔ یہاں یہ تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شاہین باغ میں مظاہرہ کرنے والی خواتین نے نظرثانی کی درخواست کے ساتھ ہی ایک اور درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔ خواتین نے مطالبہ کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے اکتوبر 2020 میں احتجاج کے بارے میں جو حکم دیا تھا اس پر دوبارہ سماعت کی جائے۔نومبر 2020 میں شاہین باغ تحریک سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر ایک نظر ثانی کی درخواست بھی زیر التوا ہے۔ ایسے میں درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ ان کا مسئلہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے سے بھی وابستہ ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ شاہین باغ معاملہ میں عدالت کی جانب سے دیا گیا تبصرہ شہریوں کے احتجاج کے حق پر شک ظاہر کرتا ہے۔شاہین باغ میں گزشتہ سال شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ایک طویل احتجاج کیا گیا تھا۔ بعد میں یہاں سے مظاہرین کو ہٹانے کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔ اسی معاملے میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پولیس کو کسی بھی عوامی مقام کو خالی کرنے کا حق ہے اور کسی بھی عوامی مقام پر غیر معینہ مدت تک مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا۔

Leave a comment