مُجھے مملکت میں اس تبدیلی کی قطعی توقع نہیں تھی: سابق سعودی سفارت کار

سعودی عرب کے سفارت کار عبدالعزیز خوجہ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کئی ممالک میں مملکت کے سفیر کے طور پر گذارا۔ اگرچہ ان کی تعلیم کیمسٹری میں تھی انہوں نے سیاست اور ادب کو بھی یکجا کردیا۔

عبدالعزیز خوجا کو سنہ 2009 میں سعودی عرب میں وزیر ثقافت و اطلاعات بھی مقرر کیا گیا جہاں وہ 6 سال سے منصب پر تک رہے۔ موصوف صاحب دیوان شاعر اور ادیب بھی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ انہوں نے فنون پربھی مطالعہ پیش کیا۔

بڑی چھلانگ”
"العربیہ ڈاٹ نیٹ” کو دیے گئے انٹرویو میں مسٹر خوجا نے ثقافت اور اطلاعات کی وزارتوں میں اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ منصب میرے لیے غیر معمولی جست ثابت ہوا۔ میں نے دیکھا کہ مملکت میں تیزی کے ساتھ تبدیلی آ رہی ہے۔ مجھے ان تبدیلیوں کی قطعی امید نہیں تھی۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ سعودی عرب نے ماضی میں بہت سی رکاوٹوں کو دور کیا ہے۔ خاص طور پر میڈیا اور ثقافت کی سطح پر مملکت کو کافی سفر طے کرنا پڑا۔ ثقافت اور اطلاعات کی دونوں وزارتیں مکمل طور پر متضاد کام ہیں۔ ان میں سے ہرایک کوایک بڑی کوشش کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ثقافت تھیٹر، موسیقی، جب کہ میڈیا زیادہ متحرک، ارتقا پذیر اور بدل رہا ہے، اس لیے انہیں ایک دوسرے سے الگ ہونا چاہیے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کی خواہش ثقافت کو ایک آزاد وزارت میں رکھنے کی تھی، جو کہ حقیقت میں تبدیل ہو گئی، جبکہ میڈیا نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن اتھارٹی اور اخبارات کی سطح پر ایک شاندار آغاز دیکھا، جس نے قومی میڈیا کو آگے بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

اشاعتی صحافت کے لیے مشورہ
سابق وزیر اور سفارت کار عبدالعزیز خوجا نے پرسکون گفتگو اور مکالمے کی زبان قائم کرنے کے لیے ذہنوں کو راغب کرنے میں وزارت اطلاعات کی ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مملکت کے پاس اس شعبے میں خام مال اور صلاحیتوں کا انتخاب ہے۔

جہاں تک اخبارات کا تعلق ہے تو انہوں نے زور دے کر کہا کہ الیکٹرانک میڈیا ترقی کے باوجود اخبارات کے قارئین موجود ہیں۔ انہوں نےاخبارات پر زور دیا کہ وہ ترقی کی طرف بڑھیں تاکہ سوشل میڈیا سے مسابقت کو منسوخ نہ کیا جائے۔

ان کی موجودہ سرگرمیوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خوجا نے کہا کہ آج کل میں شاعری کرتا اور ثقافتی سیلونز میں جانے کے ساتھ ساتھ کتابیں پڑھتا ہوں۔

ثقافتی سیلون اور فکری ملاقاتوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ ایک صحت مند ماحول فراہم کرتی ہیں۔ ہر روز لوگ نئی چیزیں سیکھتے اور دریافت کرتے ہیں۔

خوجہ اور لبنان
جب ان سے لبنان میں مملکت کے سفیر کے طور پر برسوں کے تجربے کے بارے میں پوچھا گیا توانہوں نے اس خوبصورت ملک کی تعریف کی، لیکن اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ کی موجودگی نے اسے برباد کر دیا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ یہ ایک مکمل ایرانی جماعت ہے جو نظریاتی، ہتھیاروں اور ثقافتی طور پر ایران پر انحصار کرتی اور لبنان کو ایران کے تابع لانے کی کوشش کر رہی ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ لبنان میں متنوع ثقافتوں کا ایک گروہ شامل ہے جس میں گلیمر، آزادی، تخلیقی صلاحیت، شاعری اور ادب ہے۔ یہ سب لبنانی پوری دنیا میں پھیلانے میں کامیاب ہوئے۔

تاہم ایران کے داخلے کے بعد حالات بدل گئے۔ حالیہ انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ لبنانیوں کو اس کا احساس ہو گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ خوجا 1361ھ بہ مطابق 1942 ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ریاض یونیورسٹی (موجودہ کنگ سعود یونیورسٹی) سے کیمسٹری اور ارضیات میں گریجوایشن اورانگلینڈ کی برمنگھم یونیورسٹی سے 1970ء میں کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

وہ بہت سےحکومتی عہدوں پرفائز رہنے کے علاوہ مراکش، ترکیہ، روس اور لبنان سمیت کئی ممالک میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ سنہ 2009ء سے 2014ء تک مملکت میں ثقافت اور اطلاعات کے وزیر رہے۔

Leave a comment