گجرات کے رزلٹ سے یہ نتیجہ اخذکرنا غلط ہوگا کہ عوام کے ووٹ ایک ہی سمت جارہے ہیں: شردپوار
- مرکزی حکومت مہاراشٹروکرناٹک کے سرحدی تنازعہ پر خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی
-
ہمارا کرناٹک سے کوئی تنازعہ نہیں ہے بلکہ وہاں رہنے والے مراٹھیوں کو انصاف دلانے سے ہے
ممبئی: گجرات انتخابات کے تعلق سے کسی کے ذہن میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ یکطرفہ ہوگا۔ ملک کی ساری طاقت اس کے لیے استعمال کی گئی۔ کئی فیصلے صرف ایک ریاست کی سہولت کے لیے گئے۔ اس بات کا خیال رکھا گیا کہ دیگر ریاستوں کے پروجیکٹ اس ریاست میں کیسے آئیں۔ اس کے نتیجے کے طور پر کسی کے ذہن میں کوئی شک نہیں تھا کہ گجرات انتخابات کا نتیجہ یک طرفہ آئے گا۔ گجرات کے رزلت کے پیشِ نظر یہ نتیجہ اخذکرنا کہ ملک کی عوام کا رحجان ایک ہی سمت ہے، غلط ہوگا۔ یہ باتیں آج یہاں این سی پی کے قومی سربراہ شردپوار نے کہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہلی میونسپل کارپوریشن پربی جے پی 15/سالوں سے اقتدار میں تھی لیکن وہاں کے لوگوں نے اس سے اقتدار چھین لیا۔ میرے خیال سے یہ دہلی والوں کا بہترین مظاہرہ ہے۔ ہماچل پردیش میں بھی انتخابات ہوئے جہاں بی جے پی کی حکومت تھی۔ وہاں سے بھی بی جے پی اقتدار سے باہر ہوگئی ہے۔ وہاں بی جے پی کو 25 اور کانگریس کو 40 سیٹیں ملی ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تبدیلی آہستہ آہستہ شروع ہوچکی ہے۔ شردپوار نے کہا کہ سیاست میں خلا ہوتا ہے۔ گجرات کا خلا بی جے پی نے پر کیا اور دہلی کا خلا کجریوال کی عام آدمی پارٹی نے پر کیا۔ سیاسی طور پر باشعور کارکنوں کو یہ حقیقت پیشِ نظر رکھنی چاہئے کہ بہت سے لوگ آج تبدیلی چاہتے ہیں اور سیاسی کارکنوں کو اس تبدیلی کے لیے ضروری اقدام وپروگرام روبہ عمل لانا چاہئے۔شردپوار نے کہا کہ آج مہاراشٹر میں بھی وہی خلا موجود ہے اور اس خلا کوپرکرنے کی طاقت اگر کسی پارٹی میں ہے تو وہ این سی پی ہے۔
مہاراشٹر وکرناٹک کے سرحدی تنازعے پر شردپوار نے کہا کہ ہمارا کرناٹک سے کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ ہم بس وہاں پربسنے والے مراٹھیوں کوانصاف دلانا چاہتے ہیں۔ اس معاملے میں مہاراشٹر کا جومطالبہ ہے اسے عوام کی حمایت حاصل ہے۔ یہاں مراٹھی بولنے والوں کے حق میں نتائج دیکھ کر اکثر لوگ مایوس ہو جاتے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوتا۔ اس وقت سرحدی علاقے میں ایسی ہی صورتحال ہے۔ جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے انہوں نے بیلگام یا دیگر علاقوں سے مراٹھی اکثریت کو کم کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ اس جگہ بہت سے سرکاری دفاتر لائے گئے، کنڈی کی آبادی بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ مراٹھی اور کنڑ زبان بولنے والوں کے درمیان بھی کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ ہم کنڑی بولنے والوں سے نفرت نہیں کرتے، کنڑ بھی ایک ریاستی زبان ہے۔ ہماری جدوجہد اس ریاست کے ساتھ نہیں ہے، ہماری جدوجہد صرف وہاں کے مراٹھی بولنے والوں کو انصاف دلانے کے لیے ہے، انہیں انصاف ملنا ان کا حق ہے۔
شردپوار نے کہا کہ کل پارلیمنٹ کے اجلاس کے پہلے دن این سی پی کی رکن پارلیمنٹ سپریا سولے نے سرحدی مسئلہ اٹھایا اور لوک سبھا اسپیکر نے کہا کہ یہ دو ریاستوں کے درمیان تنازعہ ہے اور یہاں اس پر بات کرنا مناسب نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں نہیں تو ہم دو ریاستوں کے معاملے پر کہاں بات کریں؟ اگر آپ اس طرف توجہ نہیں دیں گے، اگر کوئی قانون ہاتھ میں لے گا تو اس کی ذمہ داری کس کی ہے؟اس لیے میں صاف الفاظ میں کہنا چاہتاہوں کہ مرکزی حکومت ایک تماشائی کا کردار ادا نہیں کر سکتی۔یہ سوال سرحد تک محدود تھا لیکن کسی کا کہنا ہے کہ اسے گجرات کے ساتھ جانا ہے تو کوئی کہتا ہے کہ شولاپور سے کہیں اور جانا ہے۔ ایسی صورت حال اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ میں کئی سالوں تک سولاپور کا نگراں وزیر رہ چکا ہوں۔ اس ضلع میں کنڑ، تیلگو، اردو، مراٹھی جیسی زبانیں بولنے والے بہت سے لوگ ہیں۔ یہ تمام لوگ کئی سالوں سے وہاں خوش خوش رہتے ہیں۔لیکن آج کرناٹک کے وزیراعلیٰ شولاپور، اکل کوٹ جیسے علاقوں پراپنا حق جتاتے ہیں؟آخر اس کا کیا مطلب نکالا جائے؟