مدارس کے اساتذہ 33 ماہ سے تنخواہ سے محروم

نئی دہلی:مدرسہ جدید کاری اساتذہ ایسوسی ایشن اوراسلامک مدرسہ جدید کاری ایسوسی ایشن کے بینرتلے آج مدارس کے اساتذہ نے اپنی تنخواہوں کی ادائیگی کو لے کرجنترمنترپراحتجاج کیا۔ مدارس کے اساتذہ کا کہنا تھا کہ 33 ماہ سے ان کی تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہونے کے سبب ہم فاقہ کشی کی صورتحال سے گزررہے ہیں۔ اس موقع پرمظاہرین میں سخت ناراضگی دیکھنے کو مل رہی تھی۔اترپردیش کے مختلف اضلاع سے سینکڑوں کی تعداد میں یہاں جنترمنترپرآئےاساتذہ نے حکومت پرسوتیلا برتاوکرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہمارا کام بچوں کو سنوارنا اورانہیں تعلیم سے آراستہ کرنا ہے، لیکن جب ہمارے پیٹ نہیں بھریں گے، توہم کس طرح سے اپنی ذمہ داریوں کونبھائیں گے۔ اساتذہ نے کہا کہ حکومت کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو ہمارے مسائل سے کوئی سروکارنہیں ہے، اسی لئے کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔اسلامک مدرسہ جدید کاری ایسوسی ایشن کے قومی صدراعجازاحمد نے نیوز18 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1993 سے ہم وزارت برائےانسانی وسائل ترقیات کے تحت چلائی جارہی اسکیم سے وابستہ ہیں، پہلے ہمیں تنخواہیں ملتی تھیں، لیکن ابھی تین ماہ سے ہماری تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اساتذہ قحط سالی کے شکارہیں اورہمارے بہت سے اساتذہ خود کشی کرچکے ہیں، لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ہماری تنخواہوں کی ادائیگی کی جائے۔مدرسہ جدید کاری اساتذہ ایسوسی ایشن کے قومی صدرمسلم رضاخان نے نیوز18 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کی اس مہنگائی کے دورمیں 6 ہزاراور12 ہزارروپئے جوملتا ہے، وہ کچھ بھی نہیں ہے، لیکن اتنی معمولی رقم کے باوجود اب تک تین سال کی تنخواہ نہیں دی گئی ہے۔ مسلم رضا خان نے کہا کہ یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ اگرتین سال تک تنخواہ نہ دی جائے توپھراپنے بچوں کی فیس اورماں باپ کی دواوں تک کا انتظام نہیں ہوپارہا ہے، ایسے میں ہم اپنی آوازحکومت ہند تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے توبھوک ہڑتال کریں گے۔الہ آباد کی مدرسہ ٹیچرپریہ نے کہا کہ کبھی کسی جانچ کے نام پرہمیں پریشان کیا جاتا ہے، پریہ نے کہا "خالی پیٹ توبھجن بھی نہیں ہوتا ہے، بھگوان بھی یاد نہیں آتاہے، خالی پیٹ ٹیچروں سے کہا جاتا ہے کہ این سی آرٹی کی کتابیں دیجئے، پولیو ڈراپ پلائیے، روبیلا لگائیے، لیکن سیلری کے بارے میں کوئی بات نہیں ہورہی ہے”۔سنبھل کی ایک خاتون ٹیچرنے کہا کہ ہمارے یہاں تعلیم کی سطح انتہائی خراب ہے۔ 8 سال کی بچیوں کولوگ اسکول نہیں بھیجتے تھے، لیکن میں نے انہیں بیدارکیا، اس کے بعد لوگ بھیجتےہیں، لیکن ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہماری شادی تین سال قبل ہوئی تھی، تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے لوگ مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ یہ اپنی تین ماہ کے بیٹے کی فکرنہ کرکے اسکول جاتی ہے اورپیسے کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔شیام لال یادو نے کہا کہ ہم غریب بچوں کوپڑھاتے ہیں، جن کو کوئی نہیں پڑھاتا۔ ہم اتنی محنت کے ساتھ کام کرتے، بچوں کو پڑھاتے ہیں، لیکن ہمیں ہماری مزدوری نہیں دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سماج کوتعلیم یافتہ بنانے کا کام کررہے ہیں، لیکن ہمیں 6 ہزاریا 12 ہزارروپئے کی بھی ادائیگی نہیں کی جاتی ہے۔ شیام لال یادو نے کہا کہ ہم لوگ اس سلسلے میں متعلقہ افسران سے جب ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ پیسہ مل جائے گا، لیکن پھربھی کچھ نہیں ہوتا ہے۔واضح رہے کہ یہ اسکیم وزارت برائےانسانی وسائل ترقیات کی جانب سے گزشتہ 30 برسوں سے چلایا جارہا ہے، لیکن اس اسکیم کے تحت آنے والے اساتذہ آج تک مستقل نہیں ہوسکے ہیں۔ صرف اترپردیش سے 27 ہزارمدرسہ کے اساتذہ اس اسکیم کے تحت کام کررہے ہیں، لیکن مسلسل اس بات کی خبریں آتی رہتی ہیں کہ اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جارہی ہے۔

Leave a comment