غرناطہ میں مسلمانوں کا بنایا گیا آبی نظام جس میں پانی کشش ثقل کے اصول کے برخلاف نشیب سے بلندی کی طرف بہتا ہے

ہسپانیوی شہر غرناطہ میں واقع الحمرہ میں وسیع و عریض اور پُرشکوہ محلات میں ہر جگہ پانی بہتا ہے یہ مسلمانوں کے فن تعمیر کی شاندار مثالوں میں سے ایک ہیں۔ان محلات میں ہر جگہ سے نہریں گزرتی ہیں جو ان عمارتوں کو نہ صرف ٹھنڈا رکھنے میں مدد دیتی ہیں بلکہ تر و تازگی کا احساس پیدا کرتی ہیں۔صاف و شفاف پانی نہروں میں بہتا ہے اور محلات کے مختلف حصوں کو تازہ کرتا ہے۔ پانی بڑے بڑے ہالوں اور دلکش صحنوں اور دالانوں میں فواروں سے پھوٹتا ہے۔ اور یہ اوس کی شکل میں اس طرح گرتا ہے کہ بعض زاویوں سے یہ محرابوں کا منظر پیش کرتا ہے۔یہی پیچیدہ نظام الحمرہ کے مشہور باغات میں زندگی کے رنگ بکھیرتا ہے۔اپنے زمانے میں یہ دنیا کے جدید ترین آبی نظام میں سے ایک تھا جو کشش ثقل کے قدرتی اصول کے برخلاف نشیب سے بلندی کی طرف بہتا ہے اور دریا کے پانی کو، جو تقریباً ایک کلومیٹر نیچے بہتا ہے، بلندی پر واقع ان محلات اور باغات تک پہنچاتا ہے۔

اسلامی ثقافت میں پانی
ایک ہزار سال پہلے سرانجام دیا گیا یہ کارنامہ آج کے انجینیئروں کے لیے بھی حیرت کا باعث ہے۔ انسانیت میں پانی کی تاریخ کے اہم لمحات پر ایک مضمون میں یونیسکو کے بین الاقوامی ہائیڈرولوجیکل پروگرام نے کہا ہے کہ ’جدید آبی ٹیکنالوجی پانی کے باغات اور غسل خانوں کی وراثت کی مقروض ہے۔‘وہ سہولیات، جن سے کبھی صرف بااختیار اور طاقتور افراد ہی لطف اندوز ہو سکتے تھے، آج کے جدید دور میں عام لوگوں کی دسترس میں آ گئی ہیں۔ہزاروں برسوں سے بڑے شہر دریاؤں کے کناروں اور جھیلوں اور سمندروں کے ساحلوں پر آباد ہوتے آئے ہیں۔غرناطہ کی عظیم تہذیب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جو ’دارو‘ اور ’جینیل‘ نامی دریاؤں کے کناروں پھلی پھولی

 

تقریبا 800 سال تک سپین کے اس اور دیگر حصوں پر حکومت کرنے والے مسلمان حکمرانوں کے لیے پانی نے نہ صرف بقا بلکہ مذہبی اور جمالیاتی مقاصد کے لیے بھی اہمیت کا رکھتا تھا۔’پیٹروناٹو ڈی لا الحمرا‘ کے جنرل ڈائریکٹر روسید دئیز جیمیز کہتے ہیں کہ ’اسلام میں پانی زندگی کی ابتدا ہے، یہ پاکیزگی کی علامت ہے اور جسم اور روح دونوں کو پاکیزہ کرنے کے کام آتا ہےچینی مٹی کے ٹائلوں سے سجے ہوئے عوامی فوارے، اندلوسیا کے شہروں کی گلیوں اور چوراہوں میں عام ہیں۔ انھیں مسجدوں کے ساتھ وضو کے لیے یا شہر کے دروازوں کے قریب مسافروں کی پیاس بجھانے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔دئیز جیمیز کہتے ہیں اندلوسیا کے گھروں میں بھی پانی انتہائی اہم سمجھا جاتا تھا۔ ’ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا کہ اندلوسیا کے گھروں کے صحن میں پانی مرکزی عنصر نہ ہو، چاہے وہ کتنا ہی معمولی ہو: چاہے وہ تالاب ہو یا چشمہ۔‘’پانی الحمرا شہر کا بھی مرکزی حصہ ہے جو اس کے وجود کا بنیادی عنصر ہے۔‘لیکن ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔

الحمرا کیسے بنایا گیا؟
مؤرخین کا خیال ہے کہ الحمرا کو نویں صدی میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جنگوں کے دوران سوار بن ہمدان نامی شخص نے ایک قلعے کے طور پر قائم کیا تھا۔تاہم، یہ ناصرید خاندان کے پہلے بادشاہ محمد اول کی آمد تک نہیں تھا، جو سنہ 1230 سے 1492 کی ہسپانوی کیتھولک فتح تک حکمرانی کرتے رہے۔ مسلمان ماہر تعمیرات نے سبیکا پہاڑی (840 میٹر اونچائی) پر الحمرا کے بلند مقام پر شہر آباد کرنے کی مشکل کا حل نکال لیا اور 10 ہیکٹر پر پھلے رقبے کو قابل رہائش شہر میں تبدیل کر دیا اور اس بلندی تک بھی دریائی پانی کی فراہمی کا مسئلہ حل کر دیا۔افریقہ اور عرب سے نقل مکانی کر کے ان علاقوں میں آباد ہونے والے کئی صدیوں تک آس پاس کے علاقوں میں پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کھائیوں یا چھوٹی نہروں کا استعمال کرتے رہے تھے جو آبپاشی کے طریقوں کی بنیاد پر تھے جو انھوں نے بحیرہ روم اور جزیرہ نما آئبیریا کے پار توسیع کے دوران فارسیوں اور رومیوں سے سیکھے تھے۔

ناصریوں کی بڑی اختراع یہ تھی کہ ایک ایسا نظام تعمیر کیا جائے جو قریبی دریا سے چھ کلومیٹر دور پانی فراہم کر سکے اور پھر صحنوں، باغات اور غسل خانوں کے وسیع کمپلیکس تک پہنچ سکے۔

جیسا کہ جیمیز بیان کرتے ہیں کہ ’ہر چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ سب سے پہلے ناصرید ہی نے سبیکا کی سرخ پہاڑی تک پانی پہنچایا اور اسے قابل رہائش بنایا۔‘اُن کی اختراع کا بنیادی مقصد ’ایسکیا ریئل‘ تھی جو چھ کلومیٹر لمبی نہر تھی اور دریائے دارو سے نکالی گئی تھی۔پانی کے بہاؤ کو بلندی کی طرف موڑنے کے لیے ایک ڈیم تعمیر کیا گیا تھا اور دریا کے بہاؤ کی قوت کو استعمال کرتے ہوئے اس بلندی سے چھوٹے چینلوں میں پانی تقسیم کرنے سے پہلے پہاڑی کے کنارے تک پہنچایا گیا۔

پانی کی چکیاں، پانی کو مختلف سطحوں تک پہنچانے کے لیے شامل کیے گئے تھے۔ اس کے بعد یہ بڑے تالابوں، حوضوں اور پائپوں کے ایک ہجوم پر مشتمل ایک پیچیدہ ہائیڈرولک یا آبی ڈھانچے کے ذریعے ایک مربوط نیٹ ورک میں منتقل ہوا، اس سے پہلے کہ اسے الحمرا باغات اور الحمرا محل تک ایک آبی نالی کے ذریعے پہنچایا گیا.

اس سال یونیورسٹی آف غرناطہ کے پروفیسر جوسی ماریا مارٹن سیونتوس جو قرون وسطیٰ کی تاریخ اور قدیم آبپاشی تکنیک میں مہارت رکھتے ہیں اور اگوا غرناطہ فاؤنڈیشن تحفظ تنظیم آئندامار نہر کی بحالی کے منصوبے کی منتظم ہیں۔آج بھی اپنی تمام جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم ان قدیم آبی نظاموں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔سیونتوس نے وضاحت کی ہے کہ ’یہ کام روایتی رسم و رواج کے مطابق انجام دیے جائیں گے، اصل خاکے اور اس کے ورثے کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ چینل اور اس کے ارد گرد کی بحالی کے کام کا بھی خیال رکھا جائے گا.

اگوا غرناطہ فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر سبیسٹین پیرز آرٹیز نے کہا کہ پانی نیم بنجر ماحولیاتی نظام والے علاقوں کو سیراب کرے گا اور آئنادار مقامی نباتات کی ترقی کے لیے ماحولیاتی راہداری اور بہت سے جانوروں کے لیے ایک مسکن بن جائے گا۔

سیونٹوس بتاتے ہیں کہ موروں کے ذہین طریقے ہم پر یہ واضح کرتے ہیں کہ اختراع اور ٹیکنالوجی کو تحفظ سے متصادم اور پائیداری سے بہت کم ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔آبپاشی کا نظام ہمیں ایک وسیع ماحولیاتی نظام فراہم کرتے ہیں جس پر ہمارے بہت سے ثقافتی ورثوں کا انحصار ہے۔(بہ شکریہ بی بی سی اردو)