شہریت قانون: مودی حکومت پر نہیں پڑا مظاہروں کا اثر، نوٹیفکیشن جاری، 10 جنوری سے ہو گیا نافذ

دہلی، آسام، بہار، اتر پردیش، تلنگانہ، مہاراشٹر سمیت ملک کی بیشتر ریاستوں میں شہریت قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ جاری ہیں۔ اس درمیان 10 جنوری کو مودی حکومت نے شہریت قانون سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کر دیا جس میں صاف طور پر واضح کیا گیا ہے کہ یہ قانون 10 جنوری سے پورے ملک میں نافذ ہو گیا۔ نوٹیفکیشن جاری کیے جانے کے بعد یہ بات بھی ظاہر ہو گئی ہے کہ مودی حکومت پر کسی بھی طرح کے دھرنے و مظاہرے کا کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے اور پی ایم مودی کسی بھی حال میں اپنے قدم پیچھے کھینچنے والے نہیں ہیں۔

مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن میں لکھا گیا ہے کہ ’’مرکزی حکومت شہریت (ترمیمی) قانون 2019 (2019 کا 47) کی دفعہ 1 کی ضمنی دفعہ (2) کے ذریعہ حاصل اختیار کا استعمال کرتے ہوئے 10 جنوری 2020 کو اس تاریخ کی شکل میں متعین کرتی ہے جس میں درج بالا ایکٹ کے پروویزن قابل عمل ہوں گے۔‘‘ اس نوٹیفکیشن کے بعد ظاہر ہو گیا ہے کہ 10 جنوری کو شہریت ترمیمی قانون پورے ملک میں نافذ ہو گیا ہے اور صرف کچھ علاقے ہیں جو اس قانون سے علیحدہ ہوں گے۔ علیحدہ رہنے والے علاقے آسام، میگھالیہ، اروناچل، منی پور وغیرہ ریاستوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دراصل ان ریاستوں کے کچھ علاقوں کو مرکزی حکومت نے اِنر لائن پرمٹ جاری کیا ہے۔ اس کی وجہ سےشہریت ترمیمی قانون یہاں نافذ نہیں ہوگا۔ قابل ذکر ہے کہ اِنر لائن پرمٹ ایک دستاویز ہے جسے حکومت ہند اپنے شہریوں کے لیے جاری کرتی ہے تاکہ وہ کسی تحفظ یافتہ علاقے میں متعینہ وقت کے لیے سفر کر سکے۔

واضح رہے کہ شہریت ترمیمی قانون 10 دسمبر کو لوک سبھا او راس کے ایک دن بعد یعنی 11 دسمبر کو راجیہ سبھا سے پاس ہوا تھا۔ صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد 12 دسمبر کو یہ قانون بن گیا۔ اس قانون کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں ظلم کے شکار ہو رہے ہندو، عیسائی، سکھ، بودھ، پارسی اور یہودی اقلیتوں کو ہندوستان کی شہریت دینے کی سہولت دی گئی ہے۔ چونکہ اس قانون میں مذہب کا تذکرہ کیا گیا ہے اس لیے پورے ہندوستان میں اسے آئین مخالف قرار دیتے ہوئے زبردست مظاہرہ جاری ہیں۔

یہ ایک سینڈیکیٹیڈ فیڈ ہے ادارہ نے اس میں کوئی ترمیم نہیں کی ہے. – Source بشکریہ قومی آواز بیورو—-

Leave a comment