وزیر اعظم او بی سی برادری سے ہیں اس کے باوجود ۸سال میں اس طبقے کو کیا ملا؟:

ذات پر مبنی مردم شماری کے بغیر اوبی سی طبقے کوانصاف نہیں مل سکتا

بی جے پی اورفڈنویس کا اوبی سی طبقے کے لیے پیار صرف ایک دکھاوا ہے

نئی دہلی:ملک میں او بی سی طبقے کی بڑی تعداد ہونے کے باوجود آج تک اس طبقے کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ منڈل کمیشن کے ذریعے اس طبقے کو27 فیصد ریزرویشن ملنا شروع ہو گیا تھا، لیکن آج یہ ریزرویشن بھی خطرے میں نظر آرہا ہے۔ وزیر اعظم خود او بی سی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس کے باوجود 8 سالوں میں اس طبقے کو کیا ملا؟مرکزکی مودی حکومت سے یہ تیکھاسوال ریاستی کانگریس کے صدر نانا پٹولے نے کیا ہے۔

دہلی میں منعقدہ نیشنل اوبی سی فیڈریشن کے ساتویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ناناپٹولے نے کہا کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی او بی سی برادری کو انصاف نہیں ملا ہے۔ جب تک ذات کی بنیاد پر مردم شماری نہیں ہوگی، او بی سی برادری کو حقیقی انصاف نہیں ملے گا۔ پٹولے نے کہا کہ ہمیں او بی سی برادری کو انصاف اوران کے حقوق دلانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ریزرویشن کا مسئلہ زیر بحث ہے لیکن مرکزی حکومت پبلک سیکٹر کے بینکوں، انشورنس کمپنیوں، ریلوے سمیت تمام سرکاری اداروں کی نجکاری کر رہی ہے۔ نجکاری کے بعد کوئی ریزرویشن نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ سے او بی سی کا ریزرویشن خطرے میں ہے اور سیاسی ریزرویشن پر بھی بحران بڑھتا جا رہا ہے، ایسے میں اس ریزرویشن کو بچانے کے لیے ذات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے اور سب کو اس کے لیے اصرار کرنا چاہیے۔ پٹولے نے کہا کہ جب وہ اسمبلی کے اسپیکر تھے تو انہوں نے ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرانے کی تجویز پیش کی تھی اور اسے منظور کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد ملک بھر میں اسی طرح کی قراردادیں منظور کی گئیں۔

نانا پٹولے نے کہا کہ ملک کے زیادہ تر لوگوں کی روزی روٹی زراعت پرہی منحصر ہے اور کسان اناج اگانے کا کام کرتے ہیں۔ اس کے اناج پر ٹیکس لگا کر تاجروں کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے جبکہ کسانوں کی آمدنی چھین لی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو او بی سی وزیر اعظم ملنے کے بعد بی جے پی لیڈر اس کا خوب ڈھنڈورہ پیٹ رہے تھے لیکن مودی کے دور حکومت میں او بی سی طبقے کے مفاد میں ایک بھی فیصلہ نہیں لیا گیا۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا نریندر مودی واقعی او بی سی سماج سے تعلق رکھتے ہیں؟ او بی سی کمیونٹی کی سب سے بڑی تعداد کسانوں کی ہے۔ ملک کی جی ڈی پی میں زراعت کا شعبہ اہم ہے لیکن کسانوں کی شراکت کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے۔ اس معاملے پرغوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔مہاراشٹر میں کسانوں کی خودکشی میں اضافہ ہوا ہے۔ کسان کو ہر طرف سے پریشان کیا جا رہا ہے اور ان پر ظلم و ستم کئے جارہے ہیں۔

پٹولے نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیویندر فڈنویس کے ذریعے او بی سی طبقے کے لیے دکھایا جانے والا پیارنقلی ہے۔ او بی سی کے سیاسی ریزرویشن کوالتواء میں ڈالنے کے پیچھے بی جے پی اور فڈنویس کا بڑا ہاتھ تھا۔ انہوں نے اپنے پانچ سالہ دور میں او بی سی کمیشن کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ساتھ ہی مرکزی حکومت سے اعداد و شمار حاصل کرنے کے لیے بھی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی۔ اس وقت ریاست میں او بی سی کا سیاسی ریزرویشن مشکل میں ہے۔اس کی شروعات فڈنویس حکومت کے دوران 2017 سے ہوئی تھی۔ دیویندر فڈنویس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے او بی سی طبقے کے لیے بہت سے فیصلے لیے ہیں لیکن اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ فڈنویس مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔ وہ او بی سی ریزرویشن کے بارے میں گمراہ کن معلومات دے رہے ہیں۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکومت کے دوران او بی سی وزارت کا اعلان کیا گیا تھا لیکن یہ وزارت صرف نام کی ہی رہی۔ جب نریندر مودی سے او بی سی وزارت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ پٹولے نے کہا کہ او بی سی وزارت بننے پر سماج کے لیے مختلف اسکیموں کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے او بی سی سماج سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اپنے سماج کو انصاف دلانے کے لیے آگے بھی جدوجہد کرنا ہوگا۔