ہمالہ کی چاندی پگھل گئی!

Taqui New

محمدتقی-مدیراعلیٰ ”ورقِ تازہ“ناندیڑ

29ستمبر2018۔ موبائل9325610858

میرے بے حد مخلص اور بے لوث دوست ڈاکٹر انیس الحق قمر© کو کیا پتہ تھا کہ اُن کے اردو ڈراموں کے مجموعہ کا عنوان ”ہمالہ کی چاندی پگھلتی رہے“ اُن کی زندگی کے آخری سفر کی سرخی بن جائے گی ۔ آج میرا قلم اپنے ہمدمِ دیرینہ انیس الحق قمر کومرحوم لکھتے ہوئے کانپ رہا ہے ۔ دل مغموم اور ذہن ماوف ہے ۔ 62 سال کی عمر بھی کوئی مرنے کی عمر ہوتی ہے ۔انیس اپنے بے شمار دوستوں ‘کرم فرماوں ‘ طلباء‘اپنے بال بچوں اوراپنے پورے خانداان کو چھوڑ کر ہمیشہ کےلئے اپنے خالق ِ حقیقی سے جلا ملا ہے ۔خدا اُن کی خطاو¿ں کو معاف کرے اور اسے اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔ پسماندگان کوصبروتحمل دے ۔
انیس کا یہ معمول تھاکہ وہ مجھ سے ملنے سے پہلے فون کردیاکرتاتھا ۔ہر دو چاردنوں بعداُس کافون آتا تھا یا پھر اسے فون کرکے شہر( ناندیڑ) کے برقی چوک میں بُلوایا کرتاتھا ۔ تقریبا 20۔25دنوں تک کاکوئی فون نہیں آیا تو میں نے خود اسے کال کی ۔ فون نہ آنے کاسبب پوچھاتو کہا کہ یار! طبعیت خراب ہے میں کہیں نہیں جارہاہوں سوائے دواخانوں کے ۔ وہ اُس وقت اورنگ آباد کے ریلوے اسٹیشن پرتھا اور ناندیڑآنے کیلئے تپون ایکسپریس کاانتظار کررہاتھا ۔ پھر بہت ہی نحیف آواز میں کہا کہ گردن اور سینے کا دردکم نہیں ہورہاہے ۔ ابھی بھی ڈاکٹر سے گردن میں انجکشن لگواکر آرہا ہوں ۔ ناندیڑآتے ہی ضرور ملوںگا۔ بس انیس سے یہ آخری صوتی ملاقات تھی ۔آہ! اُس سے اب کبھی ملاقات نہیں ہوسکے گی ۔ یہ خیال بارہا ذہن پرہتوڑے برسا رہا ہے ۔ اب توصرف اُس کی یادیں ہی رہے گئی ہیں جو مجھے حوصلہ بخشنے کےلئے کافی ہے ۔سال گزشتہ 15 اکتوبر کو جب میرے قلب پرشدیدحملہ ہواتھا تو مجھے شہر کے بھگوتی اسپتال میں شریک کیاگیاتھا ۔ انیس کو جیسے ہی اطلاع ملی وہ اپنے دوست اختر خاں(اورنگ آباد) کے ساتھ دواخانہ آیا اور مجھے دیکھ کرکہنے لگاکہ تمہاراچہرہ تو ہشاش بشاش دیکھائی دے رہاہے تمہیں ابھی زندہ رہنا ہے میری او تمہاری کتابیں چھاپنا ہے اُن کااجراءکرنا ہے‘اُس کے کہنے کامطلب یہی تھا کہ تمہیں ابھی موت نہیں آئے گی۔میں تو موت کوچکما دے کر واپس لوٹ آیا لیکن وہ اپنی زندگی میں چکما دینے میں ماہر تھا ۔موت کو چکمانہیں دے سکا!۔
انیس کے اوصاف حمیدہ کاذکر کریں تواخبار کے چار صفحات بھی کم پڑجائیں گے ۔ مین نے انیس کو بس اتنا سمجھا کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ‘ ہمدرد ملّت اورایک ادنیٰ خادم قوم تھا ۔ وہ ایک بہترین خطیب ‘ عمدہ ڈرامہ نویس‘بے باک ادیب و نقاد کے علاوہ ایک کامیاب اورمشفق استاد بھی تھا ۔ یشونت کالج ناندیڑ کے صدرشعبہ اردو کی حیثیت سے اپنے شاگردوں کی مذہبی انداز سے تربیت کی وہیں اُن میں ادب کا ذوق و شوق پیدا کیا ۔ کالج میں اردو کے کئی ثقافتی وادبی پروگرام منعقد کئے ۔ان پروگراموں میں بیرونی شہرسے قدآور شخصیات کو مدعو کیا ۔ اُس کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کادائرہ صرف اُن کے کالج ہی نہیں تھا بلکہ وہ شہر میں مختلف تنظیموں کے توسط سے یہ سرگرمیاں انجام دیاکرتے تھے ۔مولانا آزاد مشن ناندیڑ کے وہ سیکریٹری تھے چنانچہ انھوں نے 2015ءمیں کُل ہند سطح کی ایک انتہائی کامیاب دو روزہ کانفرنس منعقد کی تھی جس میں ہندوستان کی کئی ریاستوں کے ادیبوں ‘ شاعروں ‘گلوکارروں ‘ڈرامہ کے فنکاروں ‘دانشوروں اور سیاسی و سماجی رہنماو¿ں کومدعو کیاتھا ۔ انھوں نے اپنے اسی تنظیم کی جانب سے ہر سال مراٹھواڑہ کی معروف شخصیات کو ”فخرِ مراٹھواڑہ“ سے نوازنے کاسلسلہ جاری کیاتھا ۔ اس ایوارڈ کے حقداروں میں مرحوم مولانا عبدالقیوم (جماعت اسلامی ہند) ‘مولانا فاروقی مرحوم ‘سابقہ مملکتی وزیر مہاراشٹرفوزیہ خان ‘ عبدالرشید انجینئر ‘ ڈاکٹرفہیم احمدصدیقی اوربشرنواز کاشمار ہوتا ہے ۔ انیس کی ادبی خدمات کااگرمختصراًجائزہ لیں تو انھیں ملک کی کئی یونیورسٹیوں ‘کالجوں اور ادبی انجمنوں کی جانب سے منعقدہ کُل ہند اورریاستی سطح کے سیمناروں میں ادبی موضوعات پر مقالہ جات پڑھنے کاشرف حاصل رہاہے ۔اسی وجہ سے وہ ادبی دنیا کے ایک جانے پہچانے قلم کار کی حیثیت اختیار کرگئے تھے ۔ میری ناقص معلومات کے مطابق انھوں نے مرحوم نوراللہ خان (ایم ایل اے ناندیڑ) کے ساتھ ہی عملی سیاست میں قدم رکھاتھا ۔ اور بڑ ے بڑے انتخابی جلسوں سے خطاب کرکے کافی دادوتحسین حاصل کیا کرتے تھے ۔ لیکن عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی خالص ادبی اورسماجی پروگراموں اورسرگرمیوں میںحصہ لینے لگے تھے ۔وہ ”ور ق ِ تازہ“ کے ہرادبی ‘سماجی ‘ثقافتی اور تعلیمی پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور میرے کاندھے سے کاندھا لگاکر پروگراموں کی تیاریوں میں تعاون و اشتراک کیا کرتے تھے ۔ ابھی دو ماہ قبل کی بات ہے ۔ ”ور ق تازہ“ کے 25 ویں سلور جوبلی سال کے آغاز پر 25جولائی 2018 کوناندیڑ میں جلسہ افتتاحی تقاریب اور صحافت پرقومی سیمنار منعقد ہواتھا ۔تقریبا دو ماہ قبل سے تیاریاں شروع کردی گئی تھیں ۔یہ تقاریب یکم مئی 2018 تا یکم مئی 2019ءجاری رہنے والی تھیں چنانچہ ناندیڑ کے ایم ایل اے ڈی پی ساونت کی صدارت میں ایک استقبالیہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کے انیس سیکریٹری نامزد ہوئے تھے ۔ انیس پابندی سے استقبالیہ کمیٹی کے اجلاس میںشرکت کرنے 34 سیڑھیاں چڑھ کر دفتر ”ور ق ِ تازہ“ پر روزانہ تشریف لاتے تھے ۔ اس طرح انھوں نے دامے ‘درمے ‘سخنے اور قدمے بھرپورتعاون دیا ۔ ادارہ ”ور قِ تازہ“ اُن کے اس تعاون و اشتراک کوکبھی فراموش نہیں کرسکتا ۔ انھوں نے قومی سیمنار میں”اردو صحافت کاارتقائ‘ کے عنوان سے ایک عمدہ مقالہ بھی پڑھاتھا اورر خوب دادحاصل کی تھی ۔ وہ عمدہ نثر لکھتے تھے اوردوسروں سے بھی لکھواتے تھے ۔اُن کے ڈراموں کا مجموعہ”ہمالہ کی چاندی پگھلتی رہے“ کی اشاعت سے قبل س مجموعہ پر راقم الحروف کی رائے لکھوانا چاہتے تھے میںنے کہا کہ میں نہ کوئی نقادہوں او ر نہ کوئی کہنہ مشق تبصرہ نگار ‘کسی معروف ادیب یانقاد سے رائے لکھواے ۔ لیکن یہ بضد تھے کہ میں ہی لکھوں میں نے مختصر رائے لکھ دی جو مجموعہ میںشامل ہے ۔ اور جب اُن کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کامجموعہ زیرترتیب تھا تو وہ پھر مجھ سے اصرار کرنے لگے کہ اس پرآپکا تنقیدی مضمون چاہئے ۔میں انکارکرتاتھا وہ اصرار کرتے تھے بہرحال کافی تاخیر سے میں نے ”بولتی تحریریں“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو مجموعہ میںشامل ہے ۔جہاں تک اُن کی نثر نگاری کی بات کی جائے تو اُن کی نثر پرُاثر رواں اورسحرانگیز ہوا کرتی تھی ۔ وہ اپنے مافی الضمیر کو بڑی آسانی کے ساتھ اپنے قارئین تک پہونچانے میں ماہرتھے ۔ تنقیدی شعور کی بات کی جائے تو اُن کاتنقیدی شعور اورتخلیقی شعور دونوں ساتھ ساتھ چلتے تھے ۔ اور دونوں پختہ تھے ۔ یہ اُن کے فن کا کمال ہی تو ہے ۔ مراٹھواڑہ کے معروف ادیب ڈاکٹرارتکاز افضل اپنے مضمون ”انیس قمر کی طرزِ نگارش “ میں رقم اطراز ہیں:۔
”انیس قمر عربی زبان کی تفسیر کی روایتوںسے بخوبی واقف ہیں ‘ ساتھ ہی اردو کی لسانیات کابھی ادراک رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی طرز نگارش میں ایک خاص طر ح کا ٹھہراو¿ اور اسلوب میں شگفتگی اور روانی ہے“ ۔
انیس قمر کے تحقیقی وتنقیدی مضامین کے مجموعہ ” فکرونظر“ کی ادبی اورعلمی حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی ۔ مراٹھواڑہ کی ادبی تاریخ ُاُن کی اس تصنیف کے ذکر کے بغیرنا مکمل سمجھی جائے گی ۔ ا س کتاب پرملک کے نامور نقادوں اورادیبوں نے اپنی مثبت رائے دی ہے ۔ڈاکٹر عبدالعزیز(صدر شعبہ اردو ‘ڈاکٹر ذکرحسین کالج دہلی) رقم طراز ہیں۔”انیس قمر کی تحریربھی صاف و سادہ زبان اور مروج اُسلوب میں ہیں ۔جو اُن کی کشادہ ذہنی اورگہرے مطالعہ کامظہر ہیں“۔
انیس قمر کا فکر وفن اُن کی کتابوں اورتحریروں میں محفوظ ہوگیا جنہیں آئندہ نسلیں پڑھ کر فیض حاصل کریں گی اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے لیکن مجھ کو اپنا یاربارش دوست اب کبھی نہیں مل سکے گا۔یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل ڈوب ڈوب جاتا ہے ۔ فیض احمد فیض© کے ذیل کے چار مصرعے میری دلی کیفیت کے حقیقتاً غماز ہیں۔
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
ویراں ہے میکدہ ‘خم و ساغر اُداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
میں کافی دنوں سے اپنے ذہن و قلب پر ایک عجیب سا بوجھ محسو س کررہاہوں جس کا آج اظہار کرکے شاید میں خود کو ہلکا محسوس کرنے لگوں ۔ میں تقریبا30 سال سے پیشہ صحافت سے جُڑا ہوا ہوں ۔ اس عرصہ میں میں نے ہزاروں افراد جن میں دوست و احباب بھی شامل تھے کی رحلت پرخبریں لکھیں اورانھیں اپنے اخبار میں سیاہ حاشیہ کے ساتھ شائع کرتا رہا ۔آج انیس کی بے وقت موت کی شاہ سرخی بھی میری ہی نوکَ قلم سے بنی ہے اور میرے ہی اخبار کی سرخی بننے جارہی ہے ۔جس طرح انیس کی موت ایک سچا واقعہ ہے اسی طرح یہ بات بھی پتھر کی لکیر ہے کہ دوستوں کے انتقال کی خبر لکھتے لکھتے ایک دن ایسابھی آئے گاکہ ہم اپنے ہی اخبار کی شاہ سُرخی بن جائیںں گے۔
Leave a comment