کابل میں امریکی ڈرون حملے پر ’سوالات‘ اٹھنے لگے

واشنگٹن، 13 ستمبر (یو این آئی) دو بڑے امریکی اخبارات نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے امریکی فوج کی جانب سے کابل میں مبینہ داعش دہشت گردوں پر ڈرون حملے کیے جانے پر سوالات اٹھادیے ہیں۔ڈان کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج نے 29 اگست کو کابل میں ڈرون حملہ کیا اور دعویٰ کیا تھا کہ تباہ کی گئی کار میں داعش کے ہمدرد تھے۔حملے کے فوراً بعد ہی امریکی سینٹرل کمانڈ نے دعویٰ کیا کہ کار میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا جو کابل ایئرپورٹ کے لیے تھا۔بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ’گاڑی سے دھماکہ خیز مواد سے متعلق دیگر چیزوں کی بہت مقدار تھی‘۔یکم ستمبر کو ایک پریس کانفرنس میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے اسے ایک ’درست حملہ‘ قرار دیا۔

رواں ہفتے کے آخر میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا کہ ان کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ کار میں دھماکہ خیز مواد نہیں تھا۔امریکی اخبارات کے مطابق کار میں امریکی امدادی گروپ نیوٹریشن کے لیے کام کرنے والے ایک انجینئر 43 سالہ زمری احمدی تھے، جو ڈرائیونگ کررہے تھے۔ان کے اہلخانہ نے ٹائمز کو بتایا کہ زمری احمدی نے امریکہ میں پناہ کے لیے درخواست دی ہوئی تھی اور جس وقت ان پر حملہ تب وہ اہل خانہ کے لیے پینے کا پانی لے کر آرہے تھے۔

نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے امریکی فوج کی جانب سے ’دھماکوں کے لیے استعمال ہونیوالے دیگر سامان‘ سے متعلق بیان پر بھی سوال کیا۔نیویارک ٹائمز کے رپورٹرز کو جائے وقوعہ پر دوسرے دھماکے کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا جبکہ ماہرین نے دیواروں یا پودوں کو کوئی نقصان نہ ہونے کی جانب بھی اشارہ کیا۔سیکیورٹی کنسلٹنٹ کرس کوب اسمتھ نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’اس حملے میں انٹیلی جنس پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے‘۔

دھماکہ خیز مواد کے ماہرین نے نیویارک پوسٹ کو بتایا کہ زیادہ تر نقصان ڈرون کی جانب سے داغے گئے ہیل فائر میزائل کی وجہ سے ہوا، اگر کوئی دوسرا دھماکہ ہوتا تو وہ ایندھن کی وجہ سے ہوتا۔کیلیفورنیا میں مقیم نیوٹریشن اینڈ ایجوکیشن انٹرنیشنل کے صدر اسٹیون کوون نے نیویارک پوسٹ کو بتایا کہ زمری احمدی کا تعلق ہماری تنظیم سے تھا، انہوں نے این ای آئی میں بے گھر افراد کے لیے ہنگامی فوڈ ایڈ پروگرام پر بات چیت کے بعد وہ اپنی کار میں چلے گئے تھے۔انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ این ای آئی کا تعلق دہشت گرد تنظیم داعش سے ہے۔

انہوں نے نیویارک پوسٹ کو بتایا کہ ہم لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارے پاس لوگوں کو مارنے کے لیے دھماکا خیز مواد کیوں ہوگا؟نیویارک ٹائمز نے کہا کہ ویڈیو ثبوتوں کا جائزہ لینے اور ایک درجن سے زائد زمری احمد کے دوستوں اور خاندان کے اراکین کے انٹرویو لینے کے بعد امریکی ڈرون کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔