نئی تعلیمی پالیسی کو کابینہ کی منظوری

نئی تعلیمی پالیسی کو کابینہ کی منظوری

نئی دہلی،29جولائی (یواین آئی) مرکزی کابینہ نے آخرکار بدھ کو زیرانتظار نئی تعلیمی پالیسی کو منظوری دے دی سرکاری ذرائع کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں کابینہ کی میٹنگ میں اس پالیسی کو منظوری دی گئی۔میٹنگ میں انسانی وسائل کو فروغ وزیر ڈاکٹر رمیش پوکھریال نشنک بھی موجود تھے۔

خیال رہے کہ محترمہ اسمرتی ایرانی پچھلی حکومت میں انسانی وسائل کو فروغ کی وزیر بنی تھیں، تب سے نئی تعلیمی پالیسی بنانے کا عمل شروع ہوا اور اس طرح تقریباً چھ برس بعد اس تعلیمی پالیسی کوحتمی شکل دی گئی اور مودی کابینہ نے اس پر اپنی مہر لگا دی۔

اس سے پہلے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے اپنے دفتر میں نئی تعلیمی پالیسی بنائی تھی۔ ملک میں اس درمیان تعلیم کے شعبہ میں آئی تبدیلی کے پیش نظر حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی تیار کی تاکہ بدلے ہوئے حالات میں، خاص طورپر تکنالوجی میں آئی تبدیلی کے پیش نظر ڈیجیٹل تعلیم اور انوویشن کو اس میں شامل کیا جاسکے۔

ڈاکٹر نشنک نے کابینہ کی میٹنگ کے بعد نامہ نگاروں و بتایا کہ آج کا دن تاریخی دن ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میل کا پتھر ثابت ہوگئی۔ نئی تعلیمی پالیسی پر تبادلہ خیال کے دوران دو لاکھ 25ہزار مشورے آئے۔ملک کی تاریخ میں نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں اتنے طویل عرصہ تک کوئی تبادلہ خیال نہیں ہوا۔اطلاعات و نشریات کے وزیر پرکاش جاوڈیکر نے اس نئی پالیسی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ 34برس بعد ملک میں نئی تعلیمی پالیسی آئی ہے۔ تعلیم گھر گھر کا موضوع ہے۔ اس پالیسی کو ملک ہی پوری دنیا میں تعریف ملے گی آج کا دن تاریخی ہے۔

انہوں نے نامہ نگاروں سے کہاکہ اس پالیسی کا دستاویز اتنا تفصیلی ہے کہ اس پالیسی کے بارے میں بعدمیں سوالات پوچھیں۔اعلی تعلیم کے سکریٹری امت کھر ے نے ملک میں تعلیم کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 1948-49میں یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن قائم ہوا تھا اور اس کے بعد سیکنڈری ایجوکیش کمیشن 1952-1953میں قائم ہوا۔اس کے بعد 1964-66میں ڈی ایس کوٹھاری کی صدارت میں تعلیم کمیشن قائم ہوا جس کی بنیاد پر 1968میں ملک میں پہلی بار قومی تعلیمی پالیسی بنی۔ اس کے بعد 1976میں 42ویں آئینی ترمیم کے تحت تعلیم کو کنکرینٹ لسٹ میں شامل کیا گیا اور 1986میں قومی تعلیمی پالیسی بنی جو اب تک چل رہی تھی لیکن 1992میں اس میں تھوڑی ترمیم کی گئی۔ اس کے بعد اب نئی تعلیمی پالیسی بنی اور اس کے لئے سبرامنیم اور کستوری رنگن کمیٹی قائم ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ نئی تعلیمی پالیسی کے لئے قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ ریاستی سطح پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور ماہرین تعلیم ہی نہیں عام لوگوں سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ اس پالیسی میں کئی سطح پر ڈگری ڈپلوما وغیرہ کا التزام ہوگا اور ہنرمندی پر زور دیا جائے گا اور مختلف موضوعات اور شعبوں کو شامل کیاجائے گا۔ کریڈٹ سسٹم اور گریڈ کی خودمختاری دی جائے گی۔آن لائن تعلیم پربھی زور دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ا بھی اس پرمجموعی گھریلو پیداوار کا 4.3فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے جسے اب بڑھا کر چھ فیصد کیا جائے گا اور پرائیویٹ، سرکاری اور ٹرسٹ کی حصہ داری بھی ہوگی۔تعلیم کے لئے ایک ریگولیٹر ہوگا۔ بار بار جانچ کی جگہ خود سے اعلان قابل قبول ہوگا۔

اسکولی تعلیم کی سکریٹری انیتا کروال نے بتایا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں کل ملاکر 27اہم نکات ہیں جن میں دس اسکولی تعلیم سے متعلق ہیں اور سات نکات دونوں میں مساوی ہیں جن میں آن لائن اور تکنالوجی سے جڑی تعلیم شامل ہے۔انہوں نے بتایا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں فائیو پلس، تھری پلس تھری پلس فور کا التزام ہوگا اور آرٹ سائنس اور ووکیشنل تعلیم میں کوئی علیحدگی نہیں ہوگی اور نصاب میں کٹوتی کی جائے گی اور کلاس چھ کے بعد ووکیشنل تعلیم کو شامل کیاجائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ بچوں میں سائنٹفک شعورا ور ریاضی میں دلچسپی کو فروغ دیا جائے گاا ور تمام موضوعات پڑھائے جائیں گے خواہ میوزک ہو یا آرٹس۔ ہونہار طلبا کی نشاندہی کی جائے گی۔نئی تعلیمی پالیسی میں نیشنل ایجوکیشن کمیشن اور نیشنل ریسرچ فاونڈیش کے قیام کے علاوہ جدید جسمانی تعلیم، یوگ کھیل کود اور آرٹس پر زور دیاگیا ہے اور تین برس سے 18 برس تک کے طلبا پر توجہ دی گئی ہے۔