مسلسل گلے کی خراش کینسر کی علامت ہوسکتی ہے

ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر کسی شخص کے گلے میں مسلسل خراش کے ساتھ اسے سانس لینے میں دشواری ہو اور نگلنے میں پریشانی یا کان کا درد ہو تو تو یہ گلے کے کینسر کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ابھی جن مریضوں کو گلے بیٹھنے کی مستقل شکایات ہو یا پھر گلے میں کوئی ڈلا نکل آئے جس کی وضاحت نہ ہو سکے تو ان کے معاملے کو گلے یا نرخرے کے کینسر کی طور پر جانچ کی جاتی ہے۔بہرحال برطانیہ میں کینسر پر تحقیق کرنے والے ویلن وو نے کہا کہ مریضوں کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے ‘کیونکہ صرف گلے کی خراش اپنے آپ میں نرخرے کے کینسر سے منسلک نہیں ہے۔’لیکن اس نئی تحقیق نے اب تک کے بہترین شواہد فراہم کیے جو گلا بیٹھنے کی شکایت کرنے والے معمر افراد کی کینسر کی جانچ کی سفارش کرتے ہیں۔نرخرہ گلے کا وہ حصہ ہے جو کہ سانس کی نالی کے دہانے پر ہوتا ہے اور یہ آپ کو سانس لینے اور بولنے میں مدد کرتا ہے۔برطانیہ میں ہر سال نرخرے کے کینسر کے دو ہزار نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔اکزیٹر یونیورسٹی کی رہنمائی میں کی جانے والی تحقیق میں 600 سے زیادہ ڈاکٹروں کے مریضوں کے ریکارڈ اور نرخرے کے کیسنر کی تشخیص کیے جانے والے 806 مریضوں اور 3559 کنٹرولڈ مریضوں کا مطالعہ کیا گ?ا۔ یہ تحقیق برٹش جرنل آف جنرل پریکٹس میں شائع ہوئی ہے۔اس کی سربراہی کرنے والی ڈاکٹر الزیبتھ شیفرڈ نے کہا کہ پہلی بار صحیح معنوں میں ان تمام علامات پر اس نگاہ سے نظر ڈالی گئی ہے کہ یہ نرخرے کے کینسر کا سبب ہو سکتے ہیں۔انھوں نے کہا: ‘اس مطالعے کی درحقیقت اہمیت یہ ہے کہ ہم نے یہ معلوم کیا کہ نرخرے کے کینسر میں گلا بیٹھنا اہمیت رکھتا ہے لیکن نرخرے کے کینسر کا خطرہ ا±س وقت زیادہ ہو جاتا ہے جب گلے میں بار بار خراش ہو۔’

نرخرے کا کینسر
یہ مردوں میں عام ہے۔تمباکو اور شراب سے بہت منسلک ہے۔ابتدا میں نشاندہی ہونے سے نتائج بہتر ہوتے ہیں۔ریڈیو تھراپی، سرجری اور کیموتھراپی اس کے اہم علاج ہیں۔اگر کینسر اگلے مرحلے میں چلا گیا ہے تو مریض کا نرخرہ نکالا جا سکتا ہے
یہ لوگ پھر عام طرح سے بولنے اور سانس لینے کے قابل نہیں رہتے۔وہ گلے میں ایک مستقل سوراخ کے ذریعے سانس لیتے ہیں اور آواز کی بحالی کے لیے انھیں مزید علاج کی ضروت ہوگی۔اس کے لیے گلے کا امپلانٹ یا کوئی برقی آلہ ہو سکتا ہے جو آپ کے گلے کو آواز نکالنے کے لیے سنبھال سکے ۔اس تحقیق کے ایک مصنف پروفیسر وِلی ہیملٹن نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسلینس (نائیس) میں حالیہ گائیڈ لائنز کے کلینکل سربراہ تھے۔انھوں نے کہا یہ تحقیق اس لیے اہم ہے کہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ‘پہلے علامات کے جن مرکب کو کم خطرناک سمجھا جاتا تھا وہ ممکنہ طور پر زیادہ خطرناک ہیں۔ جب کینسر کی جانچ کے متعلق نائس کا گائئڈ شائع ہوا اس سے قبل عام ڈاکٹروں کی رہنمائی یا ان کی معلومات کے لیے کوئی گائیڈ نہیں تھی۔’تاہم انھوں نے کہا کہ وہ گلے کی عام خراش کی بات نہیں کر رہے بلکہ ایسی خراش جو اتنی زیادہ ہو کہ اس کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑ جائے۔’ہم سب لوگ گلے کی خراش کا شکار ہوتے ہیں لیکن جب یہ حد سے زیادہ بڑھ جائے اور معمول سے زیادہ ہو جائے کہ ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑے۔’انھوں نے مزید کہا کہ یہ مسلسل علامات کا مرکب ہے جس میں گلے کی خراش کے ساتھ گلے کا بیٹھنا اور سانس لینے میں دشواری، نگلنے میں تکلیف ہونا وغیرہ خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے۔ڈاکٹر شیفرڈ نے کہا کہ اس مطالعے کو نائس کے گائیڈ لائنز میں اپڈیٹ ہونے کے بعد شامل کیا جائے گا۔

Leave a comment