فلسطینیوں کے بیچ "ایک ریاستی حل” کی تائید میں اضافہ : نئی سروے رپورٹ

ایک نئے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فلسطینیوں کے بیچ دو ریاستی حل کی تائید میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے مقابل ایک ریاستی حل کے لیے تائید میں اضافہ ہوا ہے۔ سروے رپورٹ تیار کرنے والوں نے اس پیش رفت کو "سیاسی بندش اسر امن عمل کی ناکامی” کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

اس سروے کے نتائج منگل کے روز جاری کیے گئے۔ یہ سروے بیت المقدس مرکز برائے ذرائع ابلاغ و رابطہ(JMCC) نے ایک جرمن غیر منافع بخش ادارے فریڈرچ ایبرٹ فاؤنڈیشن (FES) کے تعاون سے مکمل کیا۔ سروے میں 18 برس سے زیادہ عمر کے 1200 فلسطینیوں سے اچانک ملاقات میں براہ راست گفتگو کی گئی.

سروے کے مطابق دو ریاستی حل کو فلسطینی اسرائیلی تنازع کا مثالی حل سمجھنے والوں کا تناسب کم ہو کر 29.4٪ رہ گیا ہے۔ رواں سال اپریل میں یہ تناسب 39.3٪ تھا۔ دوسری جانب دو قوموں پر مشتمل ایک ریاستی حل کی تائید بڑھ کر اس وقت 26٪ تک پہنچ چکی ہے۔ رواں سال اپریل میں یہ تناسب 21.4٪ تھا۔مغربی کنارے میں ایک ریاستی حل کی تائید زیادہ ہے جب کہ غزہ کی پٹی میں اب بھی فلسطینیوں کے بیچ دو ریاستی حل زیادہ حمایت رکھتا ہے۔

سروے کے مطابق 33.7% فلسطینیوں کے نزدیک پر امن مذاکرات اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے مناسب ترین راستہ ہے۔ اس کے مقابل 33.1% فلسطینی مسلح مزاحمت کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ 20.8% کے نزدیک عوامی مزاحمت (انتفاضہ) اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور ریاست کے قیام کے لیے بہترین ہے۔

سروے میں قانون ساز اور صدارتی انتخابات کے حوالے سے بھی فلسطینیوں کی امنگوں کی ترجمانی کی گئی۔ سروے میں شامل 70.6% کے نزدیک صدر محمود عباس کو نئے انتخابات کا اعلان کر دینا چاہیے جب کہ 18.6% اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ تقریبا 49.5% کا کہنا ہے کہ وہ ان انتخابات میں شرکت کا ارادہ رکھتے تھے جن کو ملتوی کر دیا گیا۔ اس کے مقابل 42.7% کا کہنا ہے کہ ان کا اس میں شرکت کا ارادہ نہیں تھا۔
سروے میں 34.3% فلسطینیوں کا کہنا تھا انتخابات ہونے کی صورت میں وہ "فتح” تحریک کو ووٹ دیں گے۔ اس کے مقابل 10.2% نے کہا کہ وہ "حماس” کے حق میں ووٹ ڈالیں گے جب کہ 34.1% کے مطابق وہ اپنا ووٹ استعمال نہیں کریں گے۔

سروے کے نتائج کے مطابق اس وقت 35.3% فلسطینی محمود عباس کی بطور صدر کارکردگی سے مطمئن ہیں جب کہ ان کی کارکردگی سے ناخوش فلسطینیوں کا تناسب 57.5% ہو گیا ہے۔