رمضان 2024: مقدس مہینے کے دوران دماغی صحت سے نبرد آزمائی

متحدہ عرب امارات میں ڈاکٹر کہتے ہیں کہ جہاں رمضان کا مقدس مہینہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے روحانی عکاسی اور برادری سے مربوط ہونے کا وقت ہے، وہیں معمولات میں ہونے والی تبدیلیاں تناؤ کی بلند سطح کا باعث بھی بن سکتی ہیں اس لیے ماہرینِ صحت نے دماغی صحت کی حفاظت کے لیے نمٹنے کے طریقۂ کار کا مشورہ دیا ہے۔رمضان میں فجر سے شام تک روزہ رکھا جاتا ہے جس کے لیے تمام کھانے پینے سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ ضبطِ نفس کے اس عمل کا مقصد روحانی صفات مثلا صبر، خود پر قابو اور کم نصیبوں کے لیے ہمدردی پیدا کرنا ہے۔ابوظہبی میں برجیل ڈے سرجری سنٹر کے ماہر نفسیات ڈاکٹر عثمان السید بتاتے ہیں، "اگر ہم روزے کے نفسیاتی فوائد تلاش کرنا چاہتے ہیں تو فوری تسکین کے تصور کو سمجھنا ضروری ہے۔”

السید بتاتے ہیں، "روزہ طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک روح کی خواہشات اور جسم کی ضروریات دونوں کی تسکین کو ملتوی کرتا ہے۔ روزے کے دوران ہم کھانے پینے کے ساتھ ساتھ بعض خواہشات میں فوری طور پر ملوث ہونے سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ پرہیز کا یہ عمل روح کو تربیت دیتا ہے جس کے لیے ماہرینِ نفسیات ’مؤخر کردہ تسکین‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جو خواہشات کی تکمیل کو ملتوی کرنے کی صلاحیت ہے – ایک ایسی خصوصیت جو بالغ افراد کو ناپختہ شخصیات سے ممتاز کرتی ہے۔ روزے کے ذریعے ہم صبر کی پرورش کرتے اور ذاتی پختگی کو فروغ دیتے ہیں۔”

صبر کے علاوہ روزہ کا مقصد غصے کو دبانے اور معاف کرنے کی مشق سکھانا ہے۔ السید نوٹ کرتے ہیں، "پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جہالت یا تنقید کا جواب ان الفاظ سے دینے کی ہدایت کی: ‘میں روزہ دار ہوں، میں روزہ دار ہوں۔’ یہ رہنمائی صبر اور خود پر قابو پانے کی حوصلہ افزائی اور ہمیں گرما گرم بحث یا تنازعات میں ملوث ہونے سے دور کرتی ہے۔”

جوشیلے جذبات سے نمٹنا
ڈاکٹر نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ روزہ رکھنے سے روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ رمضان کے دوران زود رنجی یا مزاج میں تبدیلی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ البتہ اس طرح کے ردِ عمل اکثر دوسرے عوامل کی وجہ سے بڑھ جاتے ہیں جو خود روزے سے متعلق نہیں ہیں۔السید کہتے ہیں، "بہت سے لوگ جو روزہ رکھتے ہیں وہ عادتاً تمباکو نوشی کرتے ہیں اور وہ روزے کے اوقات میں نکوٹین کی کمی کی علامات کا سامنا کر سکتے ہیں جن میں بے چینی، سر درد، کم ارتکازِ توجہ، اضطراب اور نیند میں خلل شامل ہیں۔”

السید مزید کہتے ہیں، "یہ اظہارات صرف روزے سے منسوب نہیں ہیں بلکہ تمباکو پر انحصار کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اسی طرح کافی، چائے اور کولا میں پائے جانے والی کیفین کے عادی افراد کو روزے کے اوقات میں کیفین کا استعمال اچانک بند کرنے پر سستی، زود رنجی اور مزاج میں تبدیلی کا تجربہ ہو سکتا ہے۔”تمباکو، کیفین یا دیگر نشہ آور اشیاء کے استعمال کو بتدریج کم کرنے سے افراد ان کی کمی کی علامات کو کم اور بڑھتے ہوئے تناؤ سے بچ سکتے ہیں۔

معمولات میں رکاوٹوں کو ایڈجسٹ کرنا
روزے کے علاوہ رمضان میں نیند کے انداز، خوراک اور سرگرمی کی سطح میں تبدیلیاں بھی شامل ہوتی ہیں جو دماغی صحت کو متأثر کر سکتی ہیں۔دبئی میں مقیم طبی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر بسی لانیان کہتے ہیں، "آپ کو سونے جاگنے کے معمول کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ کافی نیند لینے کے بارے میں پریشانیاں معمول کی بات ہیں لیکن یہ الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ جب آپ ایڈجسٹ کرتے ہیں تو اپنے ساتھ صبر کریں۔ اپنے جسم کو سننا اور ضرورت پڑنے پر آرام کرنا آپ کی ذہنی تندرستی کو محفوظ اور روحانی اعمال میں آپ کی مصروفیت کو بڑھا سکتا ہے۔”

طویل دنوں کے روزے کے بعد افطاری بھی بسیار خوری کا باعث بن سکتی ہے۔ لانیان نوٹ کرتے ہیں، "آہستہ آہستہ اور حاضر دماغی سے کھانے سے آپ کو زیادہ آگاہ ہونے میں کہ آپ کب سیر ہو گئے ہیں، ضرورت سے زیادہ کھانے کو روکنے اور اس بات کو یقینی بنانے مدد مل سکتی ہےکہ آپ کو مطلوبہ غذائیت ملے۔”

جسمانی سرگرمی کے لیے کافی وقت نکالنا ایک اور رکاوٹ ہو سکتا ہے۔ لانیان کہتے ہیں، "یہ شدید ورزش کم اور آپ کے جسم کو متحرک رکھنے کا ذریعہ زیادہ ہے۔ افطار کے بعد چہل قدمی جیسی آسان سرگرمیاں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں بالخصوص کھانے کے بعد کی سستی سے بچنے میں۔”

اخوت کی طاقت
لانیان وضاحت کرتے ہیں، "رمضان اخوت اور خیرات پر بھی بہت زور دیتا ہے۔ مقدس مہینے کے خوبصورت پہلوؤں میں سے ایک اس کا اخوت پر زور اور اتحاد اور اجتماعیت کا مشترکہ احساس ہے جو اجتماعی دعا، خوراک اور خیرات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔”تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مذہبی کمیونٹی میں شمولیت اور خاندان اور دوستوں کا سماجی سہارا دماغی صحت کے لیے گہرے فوائد کے حامل ہیں۔ برادری کی عبادت اور روایات سے ملنے والا تعلق کا اور روحانی تکمیل کا احساس تناؤ کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

غور و خوض اور روحانی اعمال
رمضان روزانہ کی عبادت اور غور و خوض کے ذریعے روحانی طور پر دوبارہ مربوط ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔لانیان مشورہ دیتے ہیں، "رمضان ہمیں خود پر غور کرنے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے۔ ہر روز سوچنے کے لیے چند لمحات نکال کر آپ اپنی زندگی میں آنے والی برکات کے بارے میں زیادہ آگاہ ہو سکتے ہیں۔”

درحقیقت مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ نماز اور مراقبہ جیسی مذہبی سرگرمیوں میں گہرائی سے مشغول ہوتے ہیں، ان میں اضطراب اور افسردگی کی شرح کم ہوتی ہے۔ رمضان کے روحانی اعمال نہ صرف مذہبی فوائد فراہم کرتے ہیں بلکہ مجموعی ذہنی تندرستی پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔لانیان کہتے ہیں، "یاد رکھیں کہ جب آپ اس مقدس مہینے کے دوران روزہ رکھتے ہیں تو آپ اپنی روحانی صحت پر توجہ دیتے ہیں اور اپنے جسم، دماغی صحت، دماغ، روح اور رشتوں کی پرورش کرتے ہیں۔ اپنی ضروریات سے آگہی حاصل کر کے اور مقابلہ کرنے کی مثبت حکمت عملیوں کو استعمال کرتے ہوئے آپ اس رمضان اندرونی سکون اور اطمینان حاصل کر سکتے ہیں۔