بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی

ہمارے معاشرے میں شادی کو اس قدر مہنگا بنا دیا گیا ہے کہ غریب آدمی ایسا مقروض ہوتا ہے کہ قرض کے بار گراں کو اٹھاتے ہوئے اس کے شب و روز کا چین و سکون غارت ہو جاتا ہے، متعدد واقعات ہمارے سامنے پیش آچکے ہیں کہ ایسا شریف النفس انسان جس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کے سامنے دست سوال نہ کیا ہو وہ بھی اپنی بیٹی کی شادی کے لئے سود جیسی فبیح رقوم کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے، اور آگے بڑھیں تو ہم سب کو دکھائی دے گا کہ بے شمار لوگ بھیک مانگ کر شادی کے لئے روپیہ جمع کرتے ہیں، ان میں بھی کچھ ایسے غیرت مند ضرور ہوں گے. جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کے سامنے سوال نہ کیا ہو، لیکن شادی کے موقع پر آکر ایک شریف النفس آدمی بھی ذلت و رسوائی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے،

کیونکہ گھر میں بیٹھی ہوئی جوان بیٹی جو جوانی کی دہلیز کو عبور کرکے تفکرات وتخیلات کی دنیا میں ہر وقت کھوئی ہوئی آنکھیں نم کئے رہتی ہے، ایک غریب باپ کو اس کا آنسو نہیں دیکھا جاتا ہے، غریب آدمی کرے تو کیا کرے ایک طرف بیٹی کی عمر ڈھلتی جا رہی ہے تو دوسری طرف شادی سے پہلے منگنی کی رسم ادا کرنا ہے، اس میں تیس چالیس لوگ آتے ہیں، ان کے لئے انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں کا انتظام کرنا پڑے گا، اور نقد رقوم سب کو الگ سے دینا ہوگا ، جامہ جوڑا کا انتظام کرنا پڑے گا ، وافر مقدار میں شیرینی کا انتظام کرنا پڑے گا، یہ سب جہیز بارات سے پہلے غریب آدمی کے اوپر خرچ کی مصیبت نازل ہوتی ہے، پچاس ہزار روپے سے لیکر ایک لاکھ تک کا خرچہ شادی سے پہلے ہوتا ہے،اب لڑکیاں مرتد ہو رہی ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ ہندوانہ رسم و رواج والی شادیاں بھی ہیں،

افسوس کے ساتھ کہتا پڑتا ہے کہ ہمارے یوپی میں مسلمانوں کی اکثریت ہندوانہ رسومات والی شادیوں میں مبتلا ہیں آنکھیں ترس جاتی ہیں سادگی والی نکاح اور شادی کو دیکھے ہوئے،
الحمدللہ آج ایسی شادی میں شرکت کا موقع ملا جسے دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا، ایسی مثالی شادی کا بہترین نمونہ پیش کرنے والے ہمارے گاؤں کرہی کے حضرت مولانا حافظ عیش محمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم ہیں جنہوں نے اپنے لخت جگر کا نکاح نالا سپارہ ممبئی میں رہنے والے جناب عبید الرحمن بھائی کرہی کی صاحبزادی سے کئے، نہ کوئی فرمائش، نہ کوئی بارات، نہ کسی قسم کی خرافات، نہ کوئی جھمیلا، بالکل سادگی والی نکاح جس کی آج کے سماج میں سخت ضرورت ہے.

سادگی کو دیکھو!!
ہم چند لوگ مسجد میں جمع ہوئے یہیں پر نکاح ہوگیا مختصر لوگ تھے، جیسے ایک گھر کے افراد ہوتے ہیں، ایسے ہی جمع ہو گئے کب نکاح ہوا کھانے سے فارغ ہو گئے کچھ معلوم ہی نہیں ہوا، لڑکی اور لڑکے والے گاؤں میں ہمارے پڑوسی ہیں چند قدم کے فاصلے پر بالکل قریب میں گھر ہے، اور ہمارے آپسی تعلقات بھی اچھے ہیں،مولانا عیش محمد صاحب قاسمی اور عبید الرحمن بھائی دونوں صاحبان ہمارے چچا جان مولانا نسیم صاحب کے ہم عمر اور ساتھیوں میں سے ہیں، اسی لئے چچا جان اور مجھے خصوصی طور پر دعوت دی گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ ہمارے چچا جان حضرت مولانا محمد نسیم صاحب دامت برکاتہم امام و مدرس دارالعلوم قاسمیہ گوگل دھام سے تشریف لائے تھے،

دوسال قبل آپ نے اپنے فرزند ارجمند کی شادی ایسے ہی سادگی کے ساتھ کی تھی، آپ ان عظیم ترین شخصیتوں میں سے ہیں کہ نکاح جیسی عظیم سنت کا جس دور میں جنازہ نکالا جا رہا ہو ایسے روح فرسا وقت میں ببانگ دہل آپ نے سادگی کے ساتھ اپنے بیٹے کی شادی کئے، ایسے معاشرے کے اندر جہاں کی اکثریت گاڑی، کولر، فریج، واشنگ مشین، نقد روپیہ، لیتے ہیں ان سب سے منہ پھیر لینا صرف سچے پکے عاشق رسول وارثین انبیاء کو ہی زیب دیتا ہے، کروڑوں رحمتیں نازل ہوں ایسے نفوس قدسیہ پر جن کا دل اللہ تعالیٰ نے طمع حرص و ہوس سے پاک صاف کر دیا ہو، کیا کہنا ان اللہ کے برگزیدہ بندوں کو جنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ آج اگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پامال کیا جائے گا، اور اس کی وجہ سے لڑکیاں مرتد ہوں گی، اس کی وجہ سے شریف النفس حضرات مصائب تکالیف میں مبتلا ہوں گے، اس کی وجہ سے اللہ کے نیک بندے بھیک مانگنے قرض لینے پر مجبور ہوں گے، تو ہم ایسی ہندوانہ رسم و رواج والی شادی کو جوتے کی نوک پر مارتے ہیں، ایسے دور میں ہم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی والی نکاح کو زندہ کریں گے، ہم سماج میں پھیلی ہوئی وبائی بیماری جہیز و بارات کا بائیکاٹ کرکے اپنی قوم کے سامنے نمونہ پیش کریں گے،ماضی میں یہ کام حضرت مولانا محمد نسیم صاحب قاسمی نے انجام دیا، اور حال میں ایسی سادگی والی نکاح کا بہترین نمونہ پیش کرنے والے حضرت مولانا عیش محمد صاحب اور عبید الرحمن بھائی ہیں،

تصور کریں تو معلوم ہوگا کہ آج اللہ تعالیٰ عرش پر فرشتوں کے سامنے ہمارے حضرت مولانا عیش محمد صاحب اور ان کے فرزند کی تعریف کر رہے ہوں گے کہ دیکھو یہ ہیں میرے صالحین بندے جنہوں نے مالی خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر صرف میری محبت میں میرے لاڈلے رسول کی عظیم سنت کو ایسے وقت میں زندہ کر رہے ہیں جس وقت لوگ اس سنت کو عملی طور پر مٹا رہے ہیں، اس کے بھیانک نتائج کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لڑکیاں گناہوں کے دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہیں ، لیکن افسوس احساس نہیں ہوتا ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کا احساس ہی مر گیا ہے،
ایسے پرآشوب حالات میں سادگی سے نکاح کا نمونہ پیش کرنے والے حضرت مولانا عیش محمد صاحب اور جناب عبیدالرحمن صاحب کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے

حقیر بندہ اور صدیق محترم جناب قاری کلیم الدین صاحب جس وقت نالا سپارہ پہنچے تو ظہر کی نماز کا وقت قریب تھا مسجد عمر میں گئے یہیں پر بعد نماز ظہر نکاح پڑھانے کا طے ہوا تھا، بعد نماز ظہر ایک شخصیت کا انتظار تھا جو کہ ممبرا سے تشریف لا رہے تھے حضرت مفتی جاوید احمد صاحب دامت برکاتہم انہیں مسجد تک لانے کے لئے ہمارے گاؤں کےجناب خیر البشر صاحب کے چھوٹے بھائی محبوب احمد صاحب گئے، محبوب صاحب کی محبت یادگار رہے گی آپ با اخلاق ملنسار مہمان نواز ہیں،

کچھ ہی دیر بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ درویشانہ صفات کے حامل حضرت مولانا مفتی جاوید احمد صاحب خراماں خراماں چلے آ رہے ہیں آتے ہی آپ سے فرفائش ہوئی کہ نکاح پڑھا دیں آپ نے مختصر سے وقت میں چند نصیحت آموز کلمات سے ہم سامعین کو فیضیاب کرتے ہوئے نکاح کا خطبہ پڑھنے میں مشغول ہو گئے، بعد نکاح چھوہارے شیرینی تقسیم کی گئی اور کھانے سے فارغ ہو کر ہم لوگ اپنے مسکن کے طرف روانہ ہو گئے، اللہ تعالیٰ اس نکاح کو اپنی بارگاہ میں بے حد قبول فرمائے اور ایسی سادگی والی نکاح ہر مسلمان کو کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین،
محمد شمیم, دارالعلوم حسینیہ بوریولی, ممبئی