بلقیس بانو، جنھیں 17 سال بعد ملا اِنصاف، لیکن معاوضہ سے اب بھی محروم…

بلقیس بانو کے ساتھ 3 مارچ 2002 کو گجرات فسادات کے دوران جو کچھ ہوا، وہ واقعہ رونگٹے کھڑے کر دینے والا تھا۔ خود پر ہوئے ظلم کے خلاف بلقیس بانو نے 17 سال لڑائی لڑی۔ بالآخر انھیں انصاف ملا اور 23 اپریل 2018 کو عدالت عظمیٰ نے گجرات حکومت کو زبردست پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ وہ بلقیس بانو کو بطور معاوضہ 50 لاکھ روپے دے اور ساتھ ہی گھر و ملازمت بھی فراہم کرے۔ کس قدر حیرانی کی بات ہے کہ 17 سال کی دوڑ بھاگ کے بعد بلقیس بانو کو عدالت کی طرف سے تو انصاف مل گیا، لیکن گجرات حکومت اب بھی اس مظلوم پر ظلم کر رہی ہے۔

دراصل تقریباً پانچ مہینے گزر چکے ہیں اور گجرات حکومت نے نہ ہی بلقیس بانو کو معاوضہ دیا ہے اور نہ ہی رہنے کے لیے گھر کا کوئی انتظام کیا ہے۔ مجبور بلقیس کو انصاف کے لیے دوبارہ عدالت میں عرضی داخل کرنی پڑی اور پھر 30 ستمبر کو ایک بار پھر گجرات حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ وہ دو ہفتہ کے اندر معاوضہ اور گھر کا انتظام کرے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ گجرات حکومت کی طرف سے وکیل نے عدالت میں ایک عرضی بھی داخل کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ معاوضہ کی رقم 50 لاکھ بہت ہے اور اسے کم کر کے 10 لاکھ کیا جانا چاہیے۔ اس عرضی کو عدالت عظمیٰ نے خارج کر دیا تھا۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر بلقیس بانو کی تکلیف اور درد کو گجرات حکومت کوئی چھوٹی موٹی تکلیف کیسے تصور کر رہی ہے۔

قابل غور ہے کہ گجرات فسادات کے بعد شورش پسند بھیڑ نے بلقیس بانو کی بے رحمی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی اور ان کی فیملی کے کئی اراکین کا قتل کر دیا۔ بلقیس نے کسی طرح خود کو بچایا اور انصاف کے لیے طویل لڑائی لڑی۔ انھوں نے ملزمین کے خلاف مقامی پولس اسٹیشن میں معاملہ درج کرایا، لیکن پولس نے ثبوتوں کی عدم موجودگی میں کیس کو خارج کر دیا۔ بلقیس بانو نے ہمت نہیں ہاری اور حقوق انسانی کمیشن پہنچ گئی۔ ساتھ ہی انھوں نے سپریم کورٹ میں عرضی بھی داخل کی۔

سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کو سہارا دیا اور کلوزر رپورٹ کو خارج کرتے ہوئے سی بی آئی کو معاملے کی جانچ از سر نو کرنے کا حکم دیا۔ سی بی آئی نے جو فرد جرم عدالت میں داخل کی اس میں 18 لوگوں کو قصوروار قرار دیا۔ ان 18 لوگوں میں 5 پولس اہلکار سمیت 2 ڈاکٹر بھی شامل تھے جنھوں نے ملزم کی مدد کرنے کے لیے ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔

بلقیس بانو کے لیے اپنے انصاف کی لڑائی لڑنا بہت آسان نہیں تھی۔ انھیں ظالموں کی دھمکیوں کا بھی سامنا تھا جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ خوف میں رہتی تھیں۔ بلقیس کے خاندان میں جو لوگ بچ گئے تھے، انھیں کئی بار دھمکایا گیا۔ یہی سبب ہے کہ دو سال میں انھوں نے کم و بیش 20 مرتبہ اپنا گھر بدلا۔ پریشان ہو کر بلقیس نے سپریم کورٹ سے گزارش کی کہ اس کیس کو وہ گجرات سے باہر کسی دوسری ریاست میں منتقل کر دیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 2008 میں ممبئی کے ایک سیشن کورٹ نے 11 ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی جن میں سے 3 نے بلقیس بانو کے ساتھ عصمت دری کی بات کا اعتراف کیا تھا۔ بمبئی ہائی کورٹ نے مئی 2017 کو سبھی ملزمین کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی اور 7 ملزمین کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔ ان ملزمین میں پولس اہلکار اور ڈاکٹر بھی شامل تھے جنھوں نے ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ ساتھ ہی عدالت نے قصورواروں کو 55 ہزار روپے معاوضہ کی شکل میں بلقیس کو دینے ک حکم دیا۔ اس کے بعد جن پولس اہلکاروں کو ہائی کورٹ نے جانچ میں قصوروار پایا تھا، گجرات حکومت نے انھیں بحال کر دیا تھا۔ پھر اس تعلق سے سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی اور پولس اہلکاروں کو پنشن سہولت دینے پر روک لگائی۔ ساتھ ہی ایک آئی پی ایس افسر کو ڈیموٹ کرنے کا حکم بھی دیا۔

گویا کہ بلقیس بانو کو عدالت سے انصاف تو ملا، لیکن گجرات حکومت نے ان 17 سالوں میں کئی بار ایسے اقدام کیے جس کی وجہ سے اسے عدالت کے ذریعہ پھٹکار سننی پڑی۔ اب دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے جو گجرات حکومت کو 50 لاکھ کا معاوضہ دینے کے لیے دو ہفتہ کا وقت مقرر کیا ہے، اس حکم پر وہ کب تک عمل کرتی ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ فی الحال گجرات حکومت نے بلقیس بانو کو 5 لاکھ معاوضہ دے رکھا ہے۔

یہ ایک سینڈیکیٹیڈ فیڈ ہے ادارہ نے اس میں کوئی ترمیم نہیں کی ہے. – Source بشکریہ قومی آواز بیورو—-

Leave a comment