افغانستان:کابل میں نقاب پوش خواتین کی طالبان کی حمایت میں ریالی

کابل۔ شہر میں مخالف طالبان ریالی کرنے والوں پر فضائی فائرینگ‘ خواتین مظاہرین کے ساتھ ہاتھا پائی اور جھگڑوں او رنقاب پوش خواتین کی طالبان دور حکومت کی حمایت میں ایک ریالی کے بعد کابل میں طالبان نے سکیورٹی تعینات کردی گئی ہے۔

سیاہ نقاب پہنے ہوئے 300کے قریب خواتین نے کابل کی سڑکوں پر نہ صرف مارچ کیابلکہ کابل یونیورسٹی کے لکچر تھیٹر کے پاس بعدازاں دھرنا بھی دیا‘ طالبان کی قیادت بالخصوص صنفی علیحدگی پر اپنی حمایت کا اظہار کیا۔مذکورہ خواتین ہاتھوں میں طالبان کا پرچم تھامے ہوئے تھے وہیں مقررین نے مغرب کو شدید تنقید کانشانہ بنایا جس کو وہ افغانستان میں غیر قانونی حملہ قراردیتے ہیں۔

مخالف طالبان احتجاجی ریالی کے تقابل میں جہاں پر شرکاء او رصحافیو ں کو بھی طالبان سکیورٹی اہلکاروں نے نہ صرف روک دیابلکہ مارپیٹ بھی کی تھی‘ موافق طالبان ریالی کے لئے خاص طور پر سخت حفاظتی انتظامات انجام دئے گئے تھے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مخالف طالبان ریالی کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ کسی بھی ریالی کو اس وقت تک اجازت نہیں ہے جب تک طالبان حکومت کی جانب سے انہیں منظوری نہیں دی جاتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ جو کوئی بھی اپنی آواز بلند کرنا چاہتے ہیں اس کو اپنی تشویش کا اظہار کرنے نہیں دیاجائے گا‘ وہیں دوسری جانب اس کا مطلب یہ ہے کہ موافق طالبان ریالی کو طالبان حکومت کی جانب سے منظوری دی جارہی ہے‘ چونکہ یہ اس وجہہ سے ہے کہ مخالف طالبان ذہن کی مخالفت کے لئے یہ کام انجام دیاجارہا ہے‘ خاص طور پر ملک میں خواتین کے حقوق کے لئے جب اس طرح کے کام انجام دئے جارہے ہیں۔

شاہد ربانی ایجوکیشن یونیورسٹی جہا ں پر موافق طالبان حامی اکٹھا ہوئے تھے اسپیکرس نے کہاکہ یہاں پر وہ ان خواتین کے خلاف کھڑے ہیں جنھوں نے طالبان کے خلاف سڑکوں پر اترنے کاکام کیاہے‘ اس بات پر زوردیاکہ وہ عورتوں خواتین کے نمائندے نہیں ہیں۔

مجموعی میں سے ایک مقرر نے کہاکہ”آخری حکومت میں کیا آزادی تھی؟ نہیں ہرگز آزادی نہیں تھی۔ پچھلی حکومت نے خواتین کا استحصال کیاہے۔ ان کی خوبصورتی کی مناسبت سے خواتین کی انہوں نے بھرتی کی تھی؟؟۔

حجاب نہیں پہننے والی خواتین کو تنقید کانشانہ بناتے ہوئے شبانہ عمری یونیورسٹی کی ایک اسٹوڈنٹ نے کہاکہ ”جو لوگ نقاب نہیں پہنتے وہ ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں“۔

ایک اورمقررسومیا نے کہاکہ ”ہم اپنی حکومت کو اپنی تمام تر قوت کے ساتھ حمایت کررہے ہیں“۔

خواتین کی صفر نمائندگی کے ساتھ اور بعدمیں کسی بھی کھیل کود میں خواتین کی حصہ داری پر امتناع عائد کرنے والی افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے اعلان کے بعد سے ہی دنیا بھر میں افغانستان میں خواتین کے حقوق پر بحث چھڑ گئی ہے۔

مذکورہ نئی طالبان حکومت اب بھی اس بات پر قائم ہے کہ وہ خواتین کو تمام حقوق فراہم کریں گے جو اسلامی شرعی قانون کے تحت دئے جاتے ہیں‘ جس میں حجاب‘ برقعہ اور یونیفارم بھی شامل ہیں۔

Leave a comment