اورنگ آباد:18اکتوبر(جمیل شیخ):مجلس اتحاد المسلمین کے اورنگ آباد وسطی حلقہ کے رکن اسمبلی سید امتیاز جلیل نے مقامی مراٹھی اخبار لوکمت کی اس خبر پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جس میں ان کی شیوسینا اور بی جے پی سے بڑھتی قربت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔
لوکمت نے یہ خبر 17 اکتوبر بدھ کے شمارہ میں شائع کی ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ دیوینور فڑونویس نے خشک سالی کا جائزہ لینے کے لئے اورنگ آباد میں جائزہ میٹنگ طلب کی تھی جس میں مدعونہ کئے جانے کے باوجود امتیاز جلیل بی جے پی کے ساتھی کے طور پر شریک تھے۔امتیاز جلیل کے ضلع کے سابق نگراں وزیر رام داس کدم سے قریبی تعلقات تھ۔ دو روز قبل ریاستی وزیر برائے شہری رسدات گریش باپٹ اورنگ آباد کے دورہ پر آئے ہوئے تھے تو وہ امتیاز جلیل کی رہائش گاہ گئے تھے ان کے ہمراہ بی جے پی کے رکن اسمبلی اتول ساوے اور ڈاکٹر بھاگوت کراڑ بھی تھے۔ اخبار کے مطابق ان تمام میں میونسپل کارپوریشن کی سیاست پر ہنسی مذاق کے ساتھ بات چیت کررہے تھے۔ اس بے بنیاد خبر پر آج ہی امتیاز جلیل نے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے اسے ہلکی صحافت قرار دیا۔ اخبار نے صرف میرے اس انداز کو پیش کیا ہے جسے میں صحافت کی بنیاد مانتا ہوں۔ میرے شیوسینا بی جے پی کانگریس یا این سی پی کے قائدین کے گزشتہ 24 سالوں سے تعلقات ہیں جب میں صحافی تھا۔ ہم اسمبلی میں ساتھ بیٹھتے تھے بحث کرتے ہیں اور لڑتے ہیں ہمارے خیالات اور نظریات مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں لیکن ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم چائے یا کافی نہیں پی سکتے یا مسکراکر بات نہیں کرسکتے۔
امتیاز جلیل نے خود فیس بک اکاؤنٹ پر گزشتہ دنوں یہ تصویریں پوسٹ کی تھیں
اخبار کے رپوٹر کا الزام کہ ڈویژنل کمشنر آفس کی میٹنگ جس کی صدارت وزیربرائے شہری رسدات وخوراک نے کی اور جس میں ڈی ایس او شریک تھے۔ میوں کیوں تھا جبکہ دیگر پارٹیو ںکے ارکان اسمبلی موجود نہیں تھے۔ میں شریک تھا کیو ںکہ میں غرباءکا خیال کرتا ہوں۔میں میٹنگ میں شہر میں گٹکا کے معاملہ کو پیش کرنا چاہتا تھا۔اس طرح دسہرہ او ردیوالی کے موقع پر غرباءکو زائد شکر کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہتا تھا۔ میں خانگی اسپتالوں میں مہنگی طبی خدمات پر بحث کرنا چاہتا تھا۔ اگر بی جے پی کے وزیر میرے گھر پر آئے تھے اس میں کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے عید کے موقع پر کئی مختلف سیاسی پارٹیو ںکے قائدین میرے گھر آتے ہیں یا پھر چائے پینے آتے ہیں۔