العربیہ کے نامہ نگار عبدالرحمان المزینی کی اسلام آباد سے ویڈیو رپورٹ کے مطابق ’’مصطفی، موسی اور مؤمن تینوں بھائی اپنے فارغ اوقات پائپ کے ٹکڑوں اور ان کے لوازمات کو لیمپوں اور دیگر ڈیزاین بناتے ہوئے صرف کر رہے ہیں۔ ان لوازمات میں پائپ کے علاوہ ٹی، جوائنٹ، ایلبو وغیرہ شامل ہیں۔ یہ اچھوتا خیال ایک اسکول مقابلے سے آیا جس میں بچوں کے سب س بڑے بھائی نے شرکت کی تھی۔ تاہم جلد ہی یہ خیال ان تینوں بچوں کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا۔ وہ اپنا فارغ وقت اسی سرگرمی میں گزارتے ہیں۔

العربیہ سے بات کرتے ہوئے موسی نے بتایا کہ وہ ’’ساتویں جماعت کا طالب علم ہے۔ میرے سب سے بڑے بھائی نے پانچ سال پہلے یہ مشغلہ شروع کیا تھا۔ پھر ہم نے بھی اس کا ساتھ دیا اور ہمارے والدین نے اس سلسلے میں ہماری بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ اگر کوئی بڑا منصوبہ ہوتا ہے تو ہم ساتھ کام کرتے ہیں بصورت دیگر ہم میں سے ہر کوئی تنہا اپنا کام کرتا ہے۔ یہ ایک اچھا اور تفریحی مشغلہ ہے”۔

ان تینوں بھائیوں کے والدین نے جگہ اور ساز وسامان کے حوالے سے اپنے بچوں کو مکمل سپورٹ فراہم کی۔ اس کا مقصد بچوں کی خدا داد صلاحیتوں اور مہارت کو جِلا بخشنا تھا۔ یہ بچے اس شوق کے ذریعے پلمبنگ کے سامان کو نرالی شکلوں اور بجلی کے لیمپوں میں تبدیل کرتے ہیں۔ ان میں بعض شکلیں کارٹون کرداروں کو ظاہر کرتی ہیں اور بعض دیگر شکلوں میں کہیں جنگجو اور کہیں تیر انداز سامنے کھڑا نظر آتا ہے۔

بچوں کے والد ہارون جنرل نے بتایا ’’کہ ہر بچہ مختلف خداد داد صلاحیت اور قدرت رکھتا ہے۔ والدین کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان صلاحیتوں کو دریافت کریں اور پھر انہیں چمکائیں … ساتھ ہی ان کی پڑھائی اور دیگر سرگرمیوں میں توازن رکھیں۔ ہمیں ان پر اس کام کے لیے دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے جس کو کرنے کی وہ خواہش نہیں رکھتے ،،، بلکہ ہمیں انہیں مفید سرگرمیوں کے حوالے سے سپورٹ فراہم کر کے ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ ان کے سامنے راستے کھلے ہیں اور صلاحیتوں کی کوئی کم نہیں”۔

جنرل ہارون کے مطابق تینوں بھائی پائپوں کو لیمپوں اور دیگر ڈیزائن میں تبدیل کرنے کے شوق تک محدود نہیں رہنا چاہتے بلکہ وہ جدت کی مختلف منزلیں طے کر کے انہیں نئے اُفق تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔