انڈیا، چین کی سرحد پر آخری سویلین آبادی کا سفر: اروناچل پردیش کے محاذ پر دونوں ملکوں کی فوجی تیاریاں

شکیل اختر بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کاہو، انڈیا چین سرحد
انڈیا کی مغربی سرحد پر واقع لداخ میں چین اور انڈیا کے ہزاروں فوجی گذشتہ ڈیڑھ برس سے پورے جنگی ساز و سامان کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد بھی کشیدگی ختم کرنے میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

جبکہ کشیدگی کے اس ماحول میں اب شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے محاذ پر بھی دونوں افواج غیر معمولی جنگی تیاریوں میں مصروف ہیں۔چین نے 30 دسمبر کو انڈیا کی ریاست اروناچل پردیش کے 15 اضلاع، پہاڑوں اور دریاؤں کے نام بدل کر چینی نام دیے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ نام چین کے اقتدار اعلیٰ اور تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے بدلے گئے ہیں اور اب یہی نام چین کے قومی نقشے اور نصابی کتابوں میں استعمال ہوں گے۔مختلف مقامات کو چینی نام دینے کا یہ اعلان چین نے نئے بارڈر لینڈ قانون کے نفاذ سے دو روز پہلے کیا۔اس نئے قانون کے تحت چین کی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ ان خطوں کو چین کے اقتدار اعلیٰ میں لانے کے اقدامات کرے جن پر چین کا دعویٰ ہے۔ مگر انڈیا نے اروناچل پردیش کے علاقوں کو چینی نام دینے کے اعلان کو مسترد کر دیا ہے۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ ’نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدل جاتی۔‘

انڈیا اور چین کے درمیان اروناچل پردیش کا مسئلہ
اروناچل پردیش انڈیا کے شمال مشرق میں ملک کی آخری ریاست ہے۔ اس ریاست کا ایک ہزار کلومیٹر کا علاقہ چین کی سرحد سے ملتا ہے۔اس ریاست کے بیشتر خطے پر چین اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ مگر ان دعوؤں اور جوابی دعوؤں کے باوجود یہ خطہ ماضی میں مجموعی طور پر پُرامن رہا ہے۔لیکن ڈیڑھ برس قبل وادی گلوان میں انڈین اور چینی افواج کے درمیان خونریز ٹکراؤ کے بعد صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔چند ہفتے قبل انڈیا کے ایک ٹی وی چینل نے خبر دی کہ چینی افواج نے اروناچل کی سرحد کے اندر فوجی مقاصد کی غرض سے ایک بڑا گاؤں تعمیر کر لیا ہے۔گذشتہ مہینے امریکہ کے محکمۂ دفاع نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ چین کی فوج نے ارونا چل پردیش کے اندر بعض مقامات پر نئے فوجی ٹھکانے اور دیہات تعمیر کیے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین کی افواج سرحد کے قریب بڑے پیمانے پر فوجی نوعیت کی تعمیرات میں مصروف ہیں۔

حکمراں جماعت بی جے پی کے سرحدی خطے میچوکا کے رکن پارلیمان تپیر گاؤ ایک عرصے سے حکومت کو چینی فوجی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کرتے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’1962 کی جنگ کے بعد سے چین اروناچل پردیش کے خطے پر قبضہ کرتا گیا۔ میں نے کئی بار اس کے بارے میں آواز اٹھائی لیکن کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اب اس نے ایک نیا سرحدی قانون پاس کیا ہے۔ اس کے تحت وہ جس زمین پر قابض ہے ار جس پر اس کا دعویٰ ہے وہ اس کی ملکیت ہو گی۔‘

پاسی گھاٹ کے رکن اسمبلی نینانگ ایرنگ کا کہنا ہے کہ چین سے تعلقات بہت اچھے ہوا کرتے تھے لیکن سنہ 2017 میں ڈوکلام اور جون 2020 میں لداخ میں فوجی ٹکراؤ کے بعد چین کا رویہ بدل گیا ہے۔ ’اب اس میں جارحیت آ گئی ہے۔ چینی فوجیوں نے لائن آف کنٹرول پر بڑی تیاریاں کی ہیں۔ انڈیا نے بھی اس کے جواب میں توپیں، بھاری بندوقیں اور دوسرے ہتھیار سرحد پر پہنچا دیے ہیں۔‘

اروناچل پردیش کے سرحدی علاقوں میں فوجی تیاریاں
اروناچل پردیش کے سرحدی علاقوں میں گذشتہ کئی ماہ سے فوجی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔ لیکن دور دراز کا علاقہ ہونے کے سبب وہاں سے مفصل خبریں باہر نہیں آ پاتیں۔اسی لیے میں نے بی بی سی اُردو کے ویڈیو صحافی شیو شنکر چٹرجی کے ساتھ سرحد کی صورتحال کا خود جائزہ لینے کے لیے چین کی سرحد کے نزدیک واقع انڈیا کے آخری گاؤں کاہو کا سفر کیا ہے۔

چین کے سرحدی علاقے بہت دور دراز علاقوں میں واقع ہیں۔ یہاں آبادی بہت کم ہے۔ یہ پورا راستہ اونچے اونچے پہاڑوں اور گھنے جنگلوں سے گھرا ہوا ہے۔ دور دور تک آبادی کے کہیں آثار نظر نہیں آتے۔راستے میں ہاؤ لیانگ نام کا ایک قصبہ ملا جو سرحد کے نزدیک ہے جہاں انڈین فوج کی بہت بڑی چھاؤنی ہے۔ شام میں ہم والنگ قصبے پہنچے۔ یہاں ہمیں رات میں قیام کرنا تھا۔ اب ہم چین کی سرحد کے قریب تھے۔ یہ پورا خطہ فوجی علاقے کی حدود کے اندر ہے۔سنہ 1962 کی جنگ میں چینی فوجیوں نے یہاں ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس خطے کا دفاع کرتے ہوئے ہزاروں انڈین فوجی مارے گئے تھے۔ ان کی یاد میں یہاں ایک ’وار میوزیم‘ بنا ہوا ہے۔

کاہو دیہات یہاں سے کچھ ہی دوری پر ہے۔ یہ انڈیا، چین کی سرحد پر آخری سویلین آبادی ہے۔ یہاں سے کچھ ہی دور چین کی حدود میں واقع آبادی دکھائی دیتی ہے۔ ساتھ میں اونچے اونچے پہاڑ ہیں، جس پر سے ایل اے سی گزرتی ہے۔ اس پورے خطے پر فوج کی حکمرانی ہے۔کاہو میں مشکل سے آٹھ، دس گھر ہوں گے۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ چین کے گاؤں ٹاٹو کا بہت سا علاقہ پہلے انڈیا کا تھا۔ایک مقامی باشندے چھوچی میور نے چین کے گاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ گاؤں کے آگے‏ جو میدان دکھائی دے رہا ہے وہ انڈیا کا تھا۔ ’زمین پر قبضہ کرنے کے لیے چین پہلے گاؤں والوں کو بھیجتا ہے۔ وہ گھر اور کھیت بناتے ہیں، بعد میں چینی فوجی وہ جگہ لے لیتے ہیں۔ یوں ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر انھوں نے لے لیا۔‘

اتنے دشوار حالات میں فوجی کشیدگی کے بیچ گھر ہونے کی اپنی الگ دشواریاں ہیں۔ کاہو کے سرپنچ کھیتی میور نے کہا ’چینی گاؤں ٹاٹو میں کھیتوں سے کاریں گزرتی دکھائی دیتی ہیں۔ کھیتوں کے سامنے سڑکیں بنی ہوئی ہیں۔ گاڑیاں درمیان سے گزرتی ہیں۔

’ٹاٹو میں دو تین اونچے اونچے موبائل ٹاور دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں انڈیا کی طرف کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ جو ٹاٹو ہے وہ سب انڈیا کا ہی تھا۔‘’پورا خطہ فوج کی نگرانی میں ہے۔ جو کچھ لوگ یہاں ہیں وہ یہاں کی بدلتی ہوئی صورتحال کے بارے بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہاں ہر جانب بڑے پیمانے پر فوجی سرگرمیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔‘

نئی سڑکیں، پُل، بیرکس اور سیاحتی مقام

چین کے دعوے کے جواب میں انڈین حکومت اب کاہو دیہات کو ایک سیاحتی مقام میں بدل رہی ہے۔ یہاں اب ہر گھر میں سیاحوں کے ٹھہرنے کے لیے ’سٹے ہوم‘ تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ خود حکومت ایک سیاحتی لاج بنا رہی ہے۔اس لاج کے نزدیک ایک نیا فوبی پُل تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مقام سے آگے سویلینز کو جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ آگے صرف انڈیا اور چین کی فوج پی ایل اے تعینات ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ چین نے ایل اے سی کے نزدیک بڑے پیمانے پر بیرکس، ٹاور اور فوجی اڈے تعمیر کیے ہیں۔کاہو اور پڑوسی گاؤں کیبیتھو کے سفر کے دوران ہم نے دیکھا کہ ہر جگہ سڑک چوڑی کی جا رہی ہے۔ بھاری فوجی ساز و سامان، ٹرک، مشینری اور فوجیوں کی نقل و حرکت کے لیے پہاڑوں کو کاٹ کر نئی سڑک تعمیر کی جا رہی ہے۔ اور پہلے سے موجود سڑکوں کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔

پرانے پلوں کی جگہ درجنوں نئے پل تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ والنگ کے ایک رہائشی لکھیم سو بیلائی نے بتایا کہ چین کی طرف کافی نیا انفراسٹرکچر بنایا گیا ہے۔ اب اس طرف بھی پرانے پلوں کی جگہ نئے پل بنائے جا رہے ہیں، نئی سڑکیں بنائی جا رہی ہیں اور یہ بہت تیزی سے بنائی جا رہی ہیں۔ہمارے ذرائع نے کیبیتھو میں ہمیں بتایا کہ انڈین فوج گذشتہ تین مہینے سے بڑے پیمانے پر اونچے اونچے پہاڑوں پر میزائل، ایم ٹرپل سیون، ہاوٹزر توپیں اور ایل-70 طیارہ شکن بھاری بندوقیں نصب کر رہی ہے۔ انجاؤ، دیبانگ ویلی، شی یومی، اپر سوبن سیری اور تاوان اضلاع میں ہوائی پٹیوں کو بڑا کیا گیا ہے۔ نئے ہیلی کاپٹرز، ڈرونز، ملٹی بیرل گنز اور راکٹ لانچرز محاذوں کے نزدیک نصب کیے جا رہے ہیں۔چین نے اکتوبر میں ایک نئے سرحدی قانون نیو بارڈر لینڈ لا کی منظوری دی ہے۔ اس کا نفاذ یکم جنوری سے عمل میں آ گیا ہے۔ چین نے نفاذ سے محض دو روز قبل اروناچل پردیش کے پندرہ رہائشی خطوں، پاڑوں اور دریاؤں کو چینی نام دے کر انھیں تاریخی طور پر اپنا بتایا ہے۔ انڈیا نے اسے مسترد کر دیا ہے لیکن اس کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

میں نے انڈین فوج کے قومی ترجمان سے ای میل کے ذریعے اروناچل پردیش میں غیر معمولی فوجی تیاریوں کے بارے میں پوچھا۔ لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔

انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ سرحدوں پر جس طرح کی غیر یقینی صورتحال ہے اس میں کسی بھی امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔

انڈین فوج نے اروناچل پردیش میں آپریشن الرٹ جاری کر رکھا ہے۔

Leave a comment