فائرنگ کے واقعات اور دھمکی سے خوفزہ نہیں ہیں۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین

نئی دہلی، 3 فروری (یو این آئی۔عابد انور) قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں جاری مظاہرہ آج 51ویں دن میں داخل ہوگیا ہے مگر دھمکیوں،شاہین باغ اور جامعہ میں فائرنگ کے بعد بھی خواتین کے عزم و استقلال میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ پہلے سے زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ وہ شاہین باغ مظاہرے میں ڈتی ہوئی ہیں۔

خاتون مظاہرین نے کہا کہ اس طرح کی حرکت سے ہم ڈرنے والی نہیں ہیں۔ہم خواتین ایسے عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گی لیکن جب تک اس قانون کو واپس نہیں لیا جاتا اس وقت تک دھرنے سے ہٹنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ چار دنوں سے جامعہ اورشاہین باغ میں گزشتہ چار دنوں میں فائرنگ کے چار واقعات ہوچکے ہیں۔ فسطائی طاقتیں اس کے واقعات کوانجام دیکر ہمیں ڈرانا چاہتی ہیں لیکن ہم انہیں بتادینا چاہتے ہیں ہم لوگ خوف زدہ نہیں ہیں بلکہ ا س سے ہمارا عزم مزید مضبوط ہوا ہے۔
پیپلز آف ہوپ کے چیرمین اور مظاہرہ میں شروع سے شریک ہونے والے رضوان احمد نے بتایا کہ جس طرح پولیس نے کل ہندو شدت پسند تنظیموں کے غنڈوں کواس علاقے میں جانے کی اجازت دی اور وہ لوگ نعرے بازی کرتے ہوئے مظاہرہ گاہ میں جانے کی کوشش کی یہ بہت ہی شرمناک ہے۔ پولیس کوانہیں اس علاقے کی طرف جانے ہی نہیں دینا چاہئے تھا اور اگر وہ لوگ نہیں مان رہے تھے تو اسی طرح حراست میں لیا جانا چاہئے تھا جس طرح جے این یو اور دیگر مظاہرین کومظاہرہ کرنے سے دینے سے پہلے حراست میں لے لیتی ہے۔

مسٹرضوان احمد نے کہاکہ جب ہم لوگ مظاہرہ کرتے ہیں یا مارچ نکالتے ہیں تو پولیس کی ہم پر کڑی نظر ہوتی ہے لیکن جب یہ شدت پسندتنظیم کے افراد آتے ہیں تو پولیس انہیں آنے دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کے ساتھ ایک نوجوان پستول لہراتا ہوا آیا اور فائرنگ کی اور پولیس خاموش تماشہ دیکھتی رہی بلکہ پولیس والے تو ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ انہوں نے کہاکہ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ جیسے وہ مجرم نہ ہوکر پولیس کا ہی آدمی ہو۔ پولیس کو انہیں فوراً دبوچنا چاہئے تھا اور اسے فائرنگ کرنے کا موقع ہی نہیں دینا چاہئے تھا۔