جھارکھنڈ میں مسلم خاتون کی موت/ قاتل پولس

✍پرویز نادر:

میرے ایک ساتھی بتار ہے تھے کہ انہوں نے یوٹیوب پر ایک شارٹ فلم دیکھی جس میں ایک دیوانے آدمی کو کچھ بچے ستارہے تھے، اس آدمی نے قریب سے ایک پتھر اٹھایا تو سب بچے بھاگ کھڑے ہوئے لیکن قریب ہی ایک چھوٹا بچہ جو کھیل رہا تھا اسے اس دیوانے نے پتھر ماردیا جس کے بعد تڑپ تڑپ کر اس بچے نے اپنی جان دے دی آخر میں اس ویڈیو کا پیغام تھا قاتل کون؟ کل ہی 5/مارچ کو ہماری بات ہوئی اور آج یہ خبر پڑھی کہ جھارکھنڈ میں پولس کے ٹارچر کی وجہ سے ایک مسلم نوجوان شدید علیل ہے جس کے صدمے میں اس کی حاملہ بیوی کی موت ہوگئی تو اب سوال یہ ہیکہ اس خاتون اور اس کے بچے کا قاتل کون ہے؟
پورا واقعہ یہ ہے کہ جھارکھنڈ کے شہر گوڈڈا کے گاؤں صاحب گنج میں ایک بنک میں چوری ہوتی ہے جس کے بعد پولس نے صاحب گنج کے ہی نوجوان ضیاء الدین انصاری کو گرفتار کرلیا اور تین سے چار دن پوچھ تاچھ کے نام پر اس نوجوان پر تشدد کرتی رہی اور اس قدر سفاکانہ کہ ضیاء الدین انصاری اس کی تاب نا لاکر بے ہوش ہوگیا جس کے بعد پولس نے اس کے گھر والوں کو اطلاع دیکر نوجوان کو لیکر جانے کے لیے کہا، اس کی اس بگڑتی ہوئی حالت کو دیکھ اس کی حاملہ بیوی نے صدمہ لے لیا اور پھر اسی صدمے کی حالت میں اس کی موت واقع ہوگئی،سب سے پہلی بات یہ کہ اگر ضیاء الدین انصاری کو بنک ڈکیٹی کے جرم میں پولس نے گرفتار کیا تو ایف آئی آر ، کورٹ سے حاصل کردہ پی سی آر اور ثبوت ضرور پولس کے پاس ہونگے۔ اور اس کی حالت بگڑنے پر پولس کو خود اس نوجوان کو اسپتال پہنچایا چاہیے تھا،دوسری بات یہ کہ اگر صرف پوچھ تاچھ کے لیے ضیاء الدین کو بلایا گیا تھا تو کس بنا اور کس قانون کے تحت اس پر تشدد کیا گیا، کیا پولس کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ اب ملزم کو خود مجرم سمجھنے اور مجرم کو سزا دینے کا بھی اختیار حاصل ہوچکا ہے، ایسے کئی فرضی معاملات میں پولس نے مسلم نوجوانوں کو بلا کسی جواز اور کیس کے گرفتار کر موت کے گھاٹ اتاردیا۔کیا یہ صرف تعصب اور نفرت پر مبنی اقدام ہے یا بھارتی مسلمانوں کو خوف و ہراس فسادات کی منصوبہ بندی کے ساتھ عملی اقدام، دھرم سنسد کے نام پر مسلم نسل کشی کی فضا بنانااور فرضی گرفتاریوں اور انکاؤنٹر کے ساتھ ساتھ اس طرح پولس کی حراست میں تشدد کے ذریعے مسلم نوجوانوں کو مارنا بھی فسطائی طاقتوں کے ہدف کا ایک ذریعہ ہے، shame on jharkhand police اور سوشل میڈیا پر تنقید سے زیادہ جھارکھنڈ پولس کو قانونی شکنجے میں کسنے کی ضرورت ہے کیونکہ ضیاء الدین انصاری کی طرح کئی بے قصور مسلم نوجوان انصاف کےمنتظر ہیں، اس معاملے پر مسلم جماعتوں کی لیگل کونسلوں اور میڈیا ڈسک و لیگل ایڈوائزرس کی طرف سے آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ قانونی چارہ جوئی کی ضرورت ہے۔

Leave a comment