اُداس چھوڑگیا وہ ہراک موسم کو (شاعر وفلم نغمہ نگار ابراہیم اشکؔ)

ساری دنیا میں ترقی پسندشاعرفیض احمدفیض صدی کی تقاریب منائی جارہی تھیں۔یہ سن 2011ءکی بات ہے ۔ ہندوستان میں فیض صدی جوش و خروش سے منائی جارہی تھی ۔ مہاراشٹر کاشہر مالیگاوں جو اردو دنیا میں ایک منفردبستان ِ اردو ادب کی حیثیت سے جاناجاتا ہے ‘میں مالیگاوں کے ادب نواز دوستوں ‘ادیبوں اور ادبی انجمنوں نے مئی 2011ءمیں جشن فیض صدی تقاریب منعقد کرنے کااعلان کیاتھا ۔فیض کی حیات ‘فن ‘ ادبی ‘سماجی ‘سیاسی خدمات پر ایک ریاستی سمینار رکھاگیاتھا ۔سمینار میں ناندیڑسے راقم الحروف اور جدیدشاعر وادیب ڈاکٹرفہیم احمدصدیقی فہیم کومہمان خصوصی کے طور پر مدعوکیاگیاتھا ۔تقاریب کے رو ح رواں معمر کمیونسٹ قائد‘ترقی پسند صحافی اورادیب محترم ہارون بی ۔اے۔تھے۔اورانکے معاون معروف جدیدیت پسند فکشن نگار احمدعثمانی تھے افسوس کہ اب یہ دونوں ا س دارفا نی سے رخصت ہوچکے ہیں۔ان سے میرے گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ہارون بی اے ماہنامہ بیباک کے مدیر تھے اور ان کی فرمائش پر میں نے بیباک کےلئے مضامین بھی لکھے تھے جنہیں انھوں نے بڑے اہتمام سے شائع بھی کیا تھا۔ فیض تقاریب میں مشہور شاعرو فلم نغمہ نگار ابراہیم اشک (ممبئی ) عبدالغفار ملک اورکریم سالار(جلگاوں) وغیرہ بھی مدعو تھے ۔

مجھے‘ڈاکٹرفہیم احمدصدیقی اورابراہیم اشک کوفیض پرمقالے پڑھنے تھے ۔مالیگاوں کے اسی سمینارمیں پہلی بار مجھے ابراہیم اشک سے ملاقات اور گفتگو کاشرف حاصل ہوا ۔ویسے انھیں میں 1992 سے جانتاتھاجب وہ فلمی دنیا سے وابستہ نہیںتھے لیکن ایک صحافی اورشاعر کی حیثیت سے شہرت حاصل کرچکے تھے ۔پربھنی سے میں نے اور میرے احباب نے ایک سہ ماہی رسالہ ” ورق تازہ“نام سے جاری کیاتھا ۔میں رسالے کامالک اورپبلیشرتھا جبکہ معروف ترقی پسند ادیب ‘ناول وافسانہ نگار ابراہیم اختر مدیر تھے ۔ آج ابراہیم اختر بھی اس دنیا میں نہیں رہے ۔وہ یکم جون 2021 کوہم سے ہمیشہ کےلئے بچھڑ گئے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے اور ہندوستان کے سبھی ادبی رسائل اوراردو اخبارات میںچھپتے رہے تھے ۔ ابراہیم اشک سے ابراہیم اختر کے گہرے دوستانہ مراسم تھے ۔دونوں کے درمیان پابندی سے خط و کتابت ہواکرتی تھی۔ سہ ماہی ورق تازہ کے پہلے شمارے کےلئے ابراہیم اشک نے اپنی دوغزلیں ارسال کی تھیں۔ جورسالے میںچھپ چکی تھیں ۔یہ شمارہ آج بھی میری ذاتی لائبریری میں محفوظ ہے ۔فیض پرسمینار کے بعد میں اور ڈاکٹر فہیم احمدصدیقی ‘ابراہیم اشک کی ہوٹل چلے گئے جہاںوہ قیام پذیرتھے ۔ ان سے گفتگو کے دوران میں نے رسالے ”ورق تازہ“ کاذکر چھیڑدیاانھوں نے فوری کہا کہ آپ لوگوں نے اس کے پہلے شمار ے میں میرا کلام بڑے اہتمام سے شائع کیاتھا ۔ پھراُن سے مختلف ادبی موضوعات پرگفتگو اورتبادلہ خیال ہوتارہا ۔ میرتقی میر ‘سراج اورنگ آبادی کی شاعری اوران کی ذاتی زندگی پرجناب اشک نے بڑا بصیرت افروزتبصرہ کیا۔اس طرح دن بھر ان کی صحبت رہی ۔ انھوں نے مجھے ان کی دونثری کتابیں اورایک شاعری کا مجموعہ بھی دیا ۔ شام ہوتے ہی ہم اور وہ اپنی اپنی منزل کی طرف چل پڑے ۔ میں‘فہیم صدیقی ناندیڑ آگئے اور اشک ممبئی چلے گئے ۔ اشک سے فون پر رابط قائم رہا ۔ گاہے ماہے بات چیت ہوتی رہتی تھی ۔ یہ ساری یادیں میرے ذہن کے کینواس پر ایک کے بعددیگر سے اُُس وقت ابھرنے لگیںجب 16جنوری 2022 کی شام میرے موبائل اسکرین پرابراہیم اشک کے انتقال پُرملال کی خبرآئی ۔ ذہن کوشاک لگا ۔خبر پڑھ کر بے حد تکلیف ہوئی کہ وہ کوویڈ19 مرض کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہارے ۔رب ذوالجلال انکی سبھی خطاوں ’کوتاہیوں اورگناہوں کو بخشے اورانھیں اپنے قرب وجوار میں جگہ عطاءکرے ۔اس مضمون کی ابتداءسے یہاں تک میں نے اپنے اور اشک کے جن احباب کاذکرکیاہے ان میںڈاکٹرفہیم احمدصدیقی‘(ناندیڑ)‘ہارون بی اے اوراحمدعثمانی(مالیگاوں)‘ عبدالغفارملک(جلگاوں)‘ابراہیم اختر( پربھنی) ہمارے درمیان سے اُٹھ چکے ہیں اور اب ابراہیم اشک بھی نہیں رہے ہیں ۔یہ سب نابغہ روزگارشخصیات گزشتہ دیڑھ دوسالوں کے عرصے میںاللہ میاں کوپیاری ہوگئیں ۔یہ دور کوویڈ19 مرض کے تانڈورقص سے عبارت ہے ۔ مرض نے لاکھوں انسانوں کواپنے بے رحم پنجے میں دبوچ لیا ۔ کروڑوںلوگوں کو آہ بکاکرتاچھوڑگیا ۔ ڈاکٹرفہیم صدیقی اردو شعری ادب کاایک بڑانام تھا۔وہ بھی کوروناوبا کے دوران ہی چل بسے وہ کورونامرض سے نہیں بلکہ اس کی وحشت ودہشت کی نذر ہوگئے۔

ہم سفر ساتھ چھوڑجاتے ہیں            دو ر تک راستہ ہی رہتا ہے
مدھیہ پردیش کے میواڑ او رمالوہ بارڈر پرواقع اہم ضلع مندسور کے ملتان پورہ میں 20جولائی 1951 کوایک غریب خاندان میں پیدا ہونے والے بچے ابراہیم خاںغوری کو کیاپتہ تھا کہ وہ روٹی کی تلاش کےلئے جدوجہد کرتا ہوایک دن اردو ادب کاقدآور شاعر صحافی ‘نقاداوربالی ووڈ فلموں کانامورنغمہ نگار بنے گا ۔آگے چل کر یہی ابراہیم خاںغوری ‘ ابراہیم اشک کے نام سے مشہور ہوا ۔ اپنے حسن سلوک و اخلاص ‘ملائم لہجہ ‘فنکارانہ صلاحیتوں سے عوام و خواص میں بے حد مقبول ہوا ۔ اللہ رب العزت نے انھیں عزت‘شہرت ‘علم ‘دانش کی دولت سے خوب نوازا ۔ اشک نے اپنی صحافتی زندگی کاآغاز اندورمیں ایک ہندی اخبار کے معاون مدیر کی حیثیت سے کیاتھا۔پھروہ دہلی چلے گئے ۔ جہاں فلمی وادبی میگزین اردوماہنامہ” شمع‘ ‘ کے شعبہ ادارت سے وابستہ ہوئے ۔یہ غالباً 1980 کازمانہ تھا ۔ اس کے مالک ادریس دہلوی تھے ۔ شمع کا سارے ہندوستان میں بلکہ بیرون ہندوستان بھی طوطی بولتاتھا ۔ اس کے ادبی معّموں نے اردو دنیا میں ہلچل مچا دی تھی ۔چنانچہ مالکان نے دونوں ہاتھوں سے بے شمار دولت بٹوری ۔ یہاں اشک کوماہانہ 350 روپے اجرت ملتی تھی ۔ ساڑھے چھ سا ل شمع میں کام کیا پھر مایا نگری ممبئی کارخ کیا ۔ یہاں ہم شمع کے عروج و زوال کی کہانی پرہلکی سی روشنی ڈالتے ہیں۔دہلی میںشمع کے دفتر کی عالی شان بلڈئنگ تھی اورمالکان شانداروسیع وعریض کئی منزلہ حویلی میں رہائش پذیر تھے۔نوکرچاکر‘موٹرگاڑیاں تھیں۔ شمع فیملی کی ایوان حکومت تک رسائی تھی۔بڑی شان وشوکت کی زندگی گزرتی تھی۔عیدقرباں پر 100 بکروں کی قربانی دی جاتی تھی ۔ لیکن ایسا کیا ہوا کہ شمع کے مالکان آناًفاناً آسمان سے زمین پرآگئے !آج دہلی میں نہ تو شمع کادفتر ہے اورنہ ہی اسکا سائن بورڈ! حویلی فروخت ہوچکی ہے۔فیملی کے افراد کاکوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔

ہاں تو ہم ابراہیم اشک کے بمبئی پہونچنے کی بات کررہے تھے ۔بمبئی کے شب و روز اور حصول روزگار کے لئے مسلسل تگ و دو کی کہانی انھوں نے خوداپنے انٹر ویو میں سنائی ہے۔ بمبئی آنے سے قبل وہ ملک کے سب سے بڑے ہندی میگزین”سریتا“ میں کالم نویس اورنامہ نگار کے طور پرخدمات انجام دے چکے تھے ۔ اسلئے بمبئی میں انھیں”’سریتا“ کے بمبئی دفتر میں کام مل گیا ۔ سرچھپانے اور دو وقت کی روٹی کاانتظام ہوگیاتھا۔اشک نے کئی سالوں تک فلمی موسیقاروں اور فلمی ڈائریکٹروں کے گھرکے چکر کاٹے ۔ کوئی کامیابی نہیں ملی ۔ البتہ جب ان کی غزلوں اورگیتوں کے البم ریلیز ہوئے تو فلمی دنیا اور اردو دنیا ان کے فنِ شعر سے کافی متاثر ہوئی ۔ان کے مداحین کی تعداد میںروزافزوں اضافہ ہوتا رہا ۔ ان کی غزلوں اورنغموں کو اس وقت سبھی معروف گلوکاروں جگجیت سنگھ ‘ چترا سنگھ‘طلعت عزیز‘ مناز مسائی ‘ چند ن داس ‘وا نی جئے رام‘ آرتی مکھرجی ‘انورادھا پوڈوال ‘ ہری ہرن نے گایا ہے ۔ البم آپ مجھے اچھے لگنے لگے کافی پسند کیاگیا ۔ البم کی مقبولیت نے اشک کےلئے بالی ووڈ کے دروازے کھول دئےے ۔ انھیں پہلا بریک فلم” گیت میرے پیار کا“ میں ملا اس کے تمام گیت انھوں نے ہی لکھے تھے لیکن بدقسمتی سے یہ فلم ریلیز نہیںہوئی اور اشک کے سارے گیت ضائع ہوگئے۔ اس کے باوجود انھوں نے حوصلہ نہیں چھوڑا ۔انھوں نے خوداپنے شعر میں اعتراف کیاہے کہ
گھرچھوڑ کے فرزانے نکل جاتے ہیں           در چھوڑ کر مستانے نکل جاتے ہیں

اشک کے فلمی جنون کایہ عالم تھا کہ انھوں نے دیڑھ سال تک موسیقار راجیش روشن کے گھر کے چکر کاٹے ۔ راجیش روشن ‘اداکار راکیش روشن کے والداور اداکار ریتک روشن کے داداہیں ۔ راجیش روشن نے اپنے دور کی بے حد کامیاب فلم ”برسات کی رات “ اداکار بھارت بھوشن‘مدھوبالا میںمسحورکن موسیقی دی تھی ۔ ایک دن اشک کی ملاقات راجیش روشن سے ہوگئی اور روشن نے اپنی فلموں کےلئے اشک کوسائن کرلیا ۔ راکیش روشن کی ہدایت میںبننے والی فلم ”کہونہ پیار ہے “ کے چارگیت اشک نے لکھے ۔ جوبے حد مشہورہوئے ہرگیت کوایوارڈ ملا ۔ اس فلم کے اداکارریتک روشن اور امیتاپٹیل تھے ۔ فلم ”کوئی مل گیا“ بھی سائن کی تھی ۔ اس کے سبھی گیت کافی مقبول ہوئے ۔ ٹی سیریز فلم کا گیت جو کافی مقبول ہوا ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
محبت عنایت کرم دیکھتے ہیں کہاں ہم تمہارے ستم دیکھتے ہیں
اب ہم ابراہیم اشک کی ادبی شاعری کی بات کرتے ہیں ۔ اشک نے غزل ‘ رباعی ‘دوہے‘مرثیہ ‘نظم ‘حمدونعمت ہر صنف سخن میںطبع آزمائی کی ہے ۔ ان کی شاعری اپنے دور کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے۔انسانی قدروں کی شکست و ریخت ‘محرومیاں‘ناآسودگیاں‘ناکامیاں ‘ اورزمانے کی ستم ظریفیاں ان کی غزلوں اورنظموں میں انسانی کرب کے اظہار سے عبارت ہے۔خوابوں کاٹوٹ کربکھرنا ‘نئی آرزووں کا جنم لینا پھران کاپامال ہونا خواہشوں اورتمناوں کادم گھٹ جانا ایک عام آدمی کے ذہن میںانتشار کی کیفیت پیدا کردیتے ہیں ۔ جبکہ شاعر تو ایک حساس دل و ذہن کامالک ہوتا ہے ۔چنانچہ مذکورہ دلی کیفیات کانوحہ اشک کی شاعری میں سنائی دیتا ہے ۔
رُتوں سے پہلے نئے خواب بُن چکا تھا میں
سفرِ وقت سے آگے مجھے نکلناتھا

چلے گئے تو پُکارے گی ہر صدا ہم کو
نہ جانے کتنی زبانوں سے ہم بیاں ہوںگے

رات بھرتنہا رہا دن بھراکیلا میں ہی تھا
شہرکی آبادیوں میں اپنے جیسا میں ہی تھا

دوستوں کیسی بہار آئی ہے یہ
دل ہرا ہے اورزخم نیلے ہیں

کیوںخریدے گا کھیلونے اب کوئی
اشک دل لوگوں کے اب سستے ہوگئے
قطرئہ آب کے دریاہونے اور ذرئہ صحرا کے صحرا ہونے کی خواہش یا جرت شاعر کے دل و دماغ میںتلاتم پیدا کردیتی ہے۔لیکن یہ خواہش صرف دل ہی میں رہے جاتی ہے جس کااظہار ابراہیم اشک یوں کرتے ہیں۔
ایک قطرئہ دریا ہے تو دریا ہوجا
ایک ذرئہ صحرا ہے تو صحرا ہوجا
اس طرح گزرحدوں سے اپنی
اک شخص اگر تُو ہے تو دنیا ہوجاؤ
یہ ہرفن مولیٰ شاعرونغمہ نگارابراہیم اشک صرف 70سال کی عمر میں 16جنوری 2022 کو ممبئی کے ایک خانگی اسپتال میں زندگی کی جنگ ہارجاتا ہے ۔اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملتا ہے ۔وہ اپنے ہی ایک عمدہ شعر کی تعبیر بن جاتا ہے۔
تِری زمین سے اُٹھیں گے تو آسمان ہوں گے
ہم ایسے لوگ زمانے میں پھر کہاں ہوںگے

Leave a comment