آپ عام شہری نہیں ہیں، آپ وزیر ہیں اورآپ نے حلف اٹھایا ہے : حکومت کے بڑبولے لیڈروں پر اجیت پوار کی سخت تنقید
ممبئی:اپوزیشن لیڈروں وعام لوگوں کے بارے میں حکومتی وزراء کے متنازعہ بیانات پر سخت تنقید کرتے ہوئے ریاست کے حزبِ مخالف لیڈر اجیت پوار نے کہا ہے کہ حکومت کے جووزیربغیرسوچے سمجھے کچھ بھی بول رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ عام شہری نہیں ہیں، وہ وزیر ہیں اور انہوں نے حلف اٹھایا ہے۔ اس لیے جو بولیں وہ سوچ سمجھ کر بولیں۔ وہ یہاں جنتادربار کے دوران این سی پی کے دفتر میں میڈیا کے نمائندو ں سے خطاب کررہے تھے۔
اجیت پوار نے وزیراعلیٰ وزیرداخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ میں بڑبولے لیڈروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کچھ وزیر جو بول رہے ہیں اس سے حکومت کی امیج خراب ہورہی ہے۔ لوگ سنتے ہیں،دیکھتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں۔ کچھ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ایسے ہی بول دیا، لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ عام شہری نہیں ہیں کہ جو چاہیں بولیں اورجس کے بارے میں چاہے بولیں۔ اجیت پوار نے کہا کہ چند روز قبل وزیرعبدالستار نے ہماری بہن سپریاسولے کے بارے میں کچھ نازیبا باتیں کہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ وناش کالے وپرت بدھی۔ آپ کیا بول رہے ہیں؟اس کا کچھ تو خیال رکھئے۔ آپ وزیرہوگئے تو کچھ بھی بولیں گے؟ وزارت آتی جاتی رہتی ہے لیکن جو باتیں آپ کہہ رہے ہیں وہ یاد رکھی جائیں گی۔
اجیت پوار نے کہا کہ میں تھانے شہر میں گیا تھا جہاں کئی لوگوں نے مجھ سے ملاقات کرکے بتایا کہ یہاں پولیس ہماری کوئی بات نہیں سنتی ہے۔ پولیس کو اوپرسے فون آتا ہے اور پولیس اسی کے مطابق کام کرتی ہے۔ پولیس اس بات کا اعتراف بھی کرتی ہے کہ ہم پر اوپر سے دباؤ ہے۔ یہ مہاراشٹر کی روایت کے بالکل خلاف ہے۔ یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ پولیس کو دباؤ کے تحت کام کرنا پڑتا ہے یا منترالیہ کے افسران دباؤ کے تحت کام کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو براہِ راست وزیراعلیٰ کے دفتر سے ہدایت ملتی ہے۔ اجیت پوار نے کہا کہ پولیس پر عوام کا اعتمادہے۔ کورونا کے دور میں ہم نے اس بات کا بخوبی مشاہدہ کیا ہے۔ عوام نے پولیس کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ آج چارمہینے سے اس ریاست کی جوصورت حال ہوگئی ہے اگر وہ مزیدقائم رہی تو یہ نہایت سنگین ہوسکتا ہے۔
اجیت پوار نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کتنے لوگوں کو’وائی پلس‘ سطح کی سیکورٹی فراہم کی گئی ہے،اس کی معلومات ہم نے آر ٹی آئی کے تحت طلب کیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو سیکوریٹی دی گئی ہے کیا واقعتا انہیں اس کی ضرورت ہے؟ کچھ لوگوں کے ساتھ تو 30-30 سرکاری گاڑیوں کا قافلہ چل رہا ہے۔ میں جب نائب وزیراعلیٰ تھا تو میں اس پر بھی توجہ دیتا تھا کہ زیادہ کاریں نہیں ہونی چاہئیں۔ سیکوریٹی اور قافلے پر جو پیسہ خرچ ہورہا ہے وہ عوام کا پیسہ ہے جو ٹیکس کی شکل میں حکومت کے پاس آتا ہے۔ اگر کسی ایم ایل اے کو کسی بھی طرح کی سیکوریٹی کی ضرورت ہے تو ضرور دیا جانا چاہئے لیکن اسی کے ساتھ عام شہریوں کی حفاظت کی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔