ہمیشہ جوان رہنے کی کنجی کیمبرج کی ایک لیبارٹری میں ہے

تصور کیجیے کہ ایک ٹرمینیٹر ماضی میں سفر کرتا ہوا آپ کی جانب پلٹ کر آ رہا ہے۔ اس کا مشن آپ کو بوڑھا ہونے سے پہلے عین عالم شباب میں مار دینا ہے۔ مختصر یہ کہ آپ کا وقت پورا ہو گیا ہے۔تو افسوس ناک بات یہ ہے کہ آپ کو کسی الہامی منظر کا تصور نہیں کرنا کیونکہ واقعی ایسا اسی وقت ہو رہا ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمینیٹر محض حقیقی ہی نہیں بلکہ آپ خود ہیں۔چاہے آپ اس بات کو پسند کریں یا نہ کریں ایک دن آپ خود اپنا خاتمہ کر لیں گے۔ اس ہولناک قاتلانہ مشین کو اس کے مشن سے روکنے والی کوئی چیز نہیں۔ یا کوئی ہے؟

ولف رائیک نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ شاید ایک ایسا آئے کہ اپنے اندر چھپے موت کے فرشتے کے حملے سے خود کو ممکن ہو۔ مجھے کنگ کینوٹ کی کہانی ہمیشہ سے پسند رہی ہے جس نے ساحل سمندر پر ایسی جگہ اپنا تخت نصب کیا جہاں تیز طوفانی لہروں کے ریلے آتے ہیں اور ان سے بچنے کے لیے سخت مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ظاہر ہے وہ ناکام رہتا ہے (ایسے پیروکار جن کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل تھا وہ انہیں اس قصے کے سمارٹ ورژن میں یہ باور کراتے نظر آتے ہیں کہ دراصل وہ کوئی قادر مطلق نہیں اور یہاں تک کہ انہیں فطرت کی عظیم طاقتوں کے سامنے خود کو ہر حال میں سپرد کر دینا چاہیے تھا)۔

وقت کی لہر کا بالکل یہی معاملہ ہے کہ اس کی زد سے بھی ہم میں سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ لیکن ممکن ہے رائیک نے ابھی کچھ ایسا کر دکھایا ہو۔رائیک برطانوی یونیورسٹی کیمبرج کی پہاڑیوں میں واقع، بڑھاپے اور تجدید شباب کے تکنیکی پہلوؤں پر دنیا کے ایک بہترین تحقیقی مرکز بابریم انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور ایپی جینیٹکس کے پروفیسر ہیں (مختصر ترین الفاظ میں ایپی جینیٹکس کا مطلب ہے جینوم کو متاثر کرنے والی ہر وہ شے جو بنیادی طور پر جینومک نہیں، ایک قلمرو جہاں پرورش کا فطرت سے اتصال ہوتا ہے)۔
ان کا ایک شوق سائیکل چلانا بھی ہے۔ وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ وقت کی لہر کے حملے کی ’شدت کم کرنے‘ کے لیے وقتی طور پر شاید یہ بہترین چیزیں ہیں، (اے) زیادہ سے زیادہ سائیکل چلانا، (بی) رات کو بہترین نیند کرنا، (سی) سبزیاں کھانا، (ڈی) اپنے دانت باقاعدگی سے صاف کرنا (یہ سچ ہے کہ منہ کی صفائی حفظانِ صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے)۔

لیکن یہ تصور کرتے ہوئے کہ آپ ان بنیادی باتوں کو پہلے سے ہی پورا کر رہے ہیں، آپ کو رائیک (بابریم کے ساتھی محققین کی پوری لیب بالخصوص پی ایچ ڈی کے طالب علم دل جیت گِل کے ساتھ مل کر) کی اس حالیہ تحقیق پر بھی نظر رکھنی چاہیے جسے وہ خلیوں کی وقتی پروگرامنگ یا transient cellular reprogramming کہتے ہیں۔اگر آپ قبل از وقت اپنا خاتمہ کرنے کو ترجیح نہیں دیتے تو شاید آپ کی دلی مراد پوری ہو گئی ہے۔ دراصل انہوں نے محض وقت کے دھارے کو روکا ہی نہیں بلکہ انسانی جسم کی گھڑی کو چابی سے دوبارہ پیچھے کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ‘نظریاتی طور پر اس کا واپس مڑنا ممکن ہے۔‘
وہ چند شکستہ، بوڑھے خلیوں کو 30 سال عمر پر روکنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک دن شاید آپ رائیک کے کلینک جا سکیں اور وہ آپ سے پوچھیں ’آپ عمر کے کس مرحلے میں رہنا چاہتے ہیں؟‘ آپ کہیں گے ’39 کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘ جس کے جواب میں وہ کہیں گے ’کیوں نہ ذرا احتیاط سے کام لیا جائے، تو ایسا کرتے ہیں 38 کر لیتے ہیں۔‘
یہ پائیداری یا استحکام کا نظریہ ہے جس کا اطلاق انسانوں پر کیا گیا ہے۔ برسبیل تذکرہ رائیک کی عمر تاریخ کے حساب سے 63 برس ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ایک دہائی یا اس کے قریب خود کو کم عمر کر لیا ہے۔

جہاں تک مجھے محسوس ہوتا ہے وہ شنگریلا کے کوئی بڑے لاما کی طرح ہو سکتے ہیں اور دو سو سال تک زندہ رہ سکتے ہیں اور جب کسی مقام پر لگے کہ اب بس کافی عمر ہو گئی، وہ خواہش کے مطابق بڑھتی عمر کو وہیں روک سکتے ہیں۔میرا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ ہر چیز ہمیشہ خراب ہو کے رہتی ہے۔ سائنسی طور پر یہ درست لگتا ہے۔ بالخصوص جب انسانی جسم کی بات ہو۔ فرسودگی ہمارے خمیر میں شامل ہے۔
جسم بتدریج کیسے زوال کا شکار ہوتا ہے، یہ جاننے کا سلسلہ محض گذشتہ چند دہائیوں میں شروع ہوا اور اس سے متعلق سائنس نے بہت تیز رفتاری سے ترقی کی ہے (اور اینڈریو سٹیل کی تازہ ترین کتاب ’ایج لیس‘ میں اس کی تاریخ نہایت عمدگی سے پیش کر دی گئی ہے)۔
اگر آپ بڑھاپے کو اپنے گرتے بالوں یا ماتھے کی گہری ہوتی جھریوں یا گذشتہ سال کی نسبت اس سال رفتار کم ہونے سے ماپتے ہیں تو یہ درست طریقہ کار نہیں۔ یہ سائنس نہیں یہ محض آپ ہیں۔ انسانی کمزوری کی ابتدا سیل میں مائیکرو یا نینو لیول پر شروع ہوتی ہے۔
بابریم ریسرچ کیمپس کا حصہ بابریم انسٹی ٹیوٹ انسانی علم حیاتیات کے شعبے میں وہی اہمیت رکھتا ہے جو ایک اور شعبے میں سرن یا یورپین آرگنائزیشن آف نیوکلیئر ریسرچ کو حاصل ہے۔
وہ اپنے کام کو fundamental science کہتے ہیں (جس کا مطلب ہے ابھی اس میں کچھ وقت لگے گا اس کے بعد ہی آپ تیار ہو کر اپنا نسخہ پکڑے کسی میڈیکل سٹور سے باہر نکل سکیں گے)۔
جبکہ جنیوا میں واقع یورپین آرگنائزیشن آف نیوکلیئر ریسرچ میں آپ انتہائی تیز رفتار اور پیچیدہ اجزا (جیسا کہ ہگز بوسان یا ’گاڈ پارٹیکل‘) کے چھوڑے ہوئے نشانات دیکھ سکتے ہیں، انسٹی ٹیوٹ امیجنگ فیسلٹی میں آپ الیکٹرون مائیکروسکوپ کی نالی میں جھانک کر خلیے کی حیران کن پیچیدگی کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
انسانی جسم میں ایسے خلیے کھربوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ آپ زندگی کے بنیادی ترین اجزا کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ مجھے ڈاکٹر سائمن واکر کی الیکٹرون مائیکروسکوپ سے دیکھنا یاد آ گیا جب ہوائی کے ایک پہاڑ کی چوٹی پر ٹیلی سکوپ کی مدد سے کائنات کے دور دراز ترین ستارے کا مشاہدہ کیا گیا تھا، ایسا محسوس ہوا تھا جیسے ہم ماضی میں پلٹ کر بگ بینگ کو دیکھ رہے ہوں۔
اس سکرین پر سبھی حیاتیات کے خلیے پراسرار طور پر ایک جیسے نظر آ رہے تھے، اچھی طرح سے زوم کریں اور ایک انسان چوہے کی طرح دکھائی دیتا ہے جو خود ایک کیچوے جیسا ہے۔
واکر کے بقول اس سے پتہ چلتا ہے کہ ’ہم سب کیسے ایک دوسرے سے منسلک ہیں، ایسا لگتا ہے آپ پیچھے مڑ کر ایک ہی جد امجد کو دیکھ رہے ہیں جس کے بعد ہم مختلف جانداروں میں تقسیم ہوئے۔‘
اگر آپ نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کریں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے زندگی سے بھرپور اور جوانی کے جذبے سے بھرا ہوا یہ جوان خلیہ زوال کی طرف رواں ہے۔ دراصل آپ خلیہ کی ہتھیلی تک پڑھ سکتے ہیں۔ آپ کی قسمت آپ کی ایپی جینیٹکس کی معلومات میں کنندہ ہے۔
رائیک کہتے ہیں، ’یہ مسلسل استعمال سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوتے بلکہ یہ ان کی بنیاد میں موجود ہے۔‘ رائیک کے ایک شاگرد انہیں چھوڑ کر چلے گئے اور اپنی الگ سے کمپنی قائم کر دی جو آپ کی ایپی جینیٹکس گھڑی کو جانچ سکتی ہے اور نہایت مہارت سے آپ کی باقی ماندہ زندگی کی پیشن گوئی کر سکتی ہے (اسے Chronomics کہتے ہیں اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہوں کہ کتنا عرصہ باقی رہ گیا ہے اور آپ اس میں کیا بہتری کر سکتے ہیں)۔
زندگی کے ایک سرے پر جو کچھ خرابی پیدا ہوتی ہے رائیک اسے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ماضی میں جا کر یہ دیکھ رہے ہیں کہ زندگی شروع ہونے کے بالکل ابتدائی مرحلے کی طاقت کیا تھی۔
آپ اپنی ایمبریونک embryonic شکل میں جس نے ایک واحد خلیے یا ’زائیگوٹ‘ سے جنم لیا۔ سپرم اور انڈے کے رومیو اور جولیٹ کا ایک اپنا پرلطف لمحہ ہے۔اس قریبی مقابلے سے ایک بالکل ہی نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، جسے اس سے پہلے کائنات کی تاریخ میں کسی نے نہیں دیکھا ہوتا (اگرچہ بہرحال وہ اپنے آبا و اجداد سے اچھی خاصی مشابہت رکھتے ہیں)۔ دور دراز ماضی میں، کئی ارب سال قبل عظیم کیمیائی مادے زمین سے ایک واحد خلیے نے جنم لیا۔
پھر یہ تقسیم ہو کر دو خلیوں میں بٹ گیا۔ تقسیم ہونا ضرب کی قسم ہے۔ آپ بھی یہی ہیں، اپنے سفر کے آغاز سے آپ تقسیم اور ضرب ہونا شروع ہوتے ہیں، دو میں، پھر چار میں، پھر آٹھ میں اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، آپ کی کلوننگ اور ری کلوننگ، یہاں تک کہ آپ کا جنم ہوتا ہے اور آپ آگے بڑھتے رہتے ہیں، تقسیم اور ضرب اور کلوننگ ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ آپ مر جاتے ہیں۔
یہ ایک نظام ہے جو کچھ عرصہ نہایت عمدگی سے چلتا ہے اور پھر یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اس وجہ سے بقول رائیک کے ’خلیے کی ہر تقسیم پر خرابیاں پیدا ہونا اس نظام کی بنیاد میں موجود ہے۔
ایسا لگتا ہے ہم بنے ہی خراب ہونے کے لیے ہیں۔ فوٹو کاپیئر نے ہمیشہ پھنسنا ہے یا آخر میں سیاہی ختم ہو جانی ہے۔ خوش قسمتی سے رائیک آپ کے زیروکس انجینیئر دوست جیسے ہیں جو حیاتیاتی فوٹو کاپیئر کا مسئلہ دور کر سکتا ہیں جو آپ ہیں۔
اس طرح یہ سب بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے: آپ کے کروموسومز کے آخری سرے پر ننھے ڈھکن ہوتے ہیں جنہیں ٹیلومیئرز کہتے ہیں۔ ہر بار جب آپ کے سیلز تقسیم ہوتے ہیں تو ہم کاپی پیسٹ والی غلطی دہراتے ہیں اور ٹیلو میئرز تھوڑے سے گِھستے ہیں یا چھوٹے ہو جاتے ہیں۔
اگر آپ بار بار ان سے ان جیسی دیگر کافی ساری نقلیں بنائیں تو آپ ٹیلومیئرز استعمال کرتے ہوئے اسے ختم کر لیتے ہیں جسے رائیک اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں ’معلوماتی مواد زوال کا شکار ہو جاتا ہے اور آپ کے خلیے غیر معیاری انداز میں کام کرنے لگتے ہیں۔
وہ ’بوڑھے‘ ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر کمزور بوڑھے خلیے خود ہی مر جاتے ہیں یا پاس سے گزرتے ہوئے دیگر قاتلانہ خلیے انہیں مار دیتے ہیں۔ خلیے کی موت (جسے سائنسی زبان میں Apoptosis کہتے ہیں) ایک اچھی چیز ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اصل مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب وہ صحیح طریقے سے نہیں مرتے لیکن بیکار یا زامبی خلیات (zombie cells) میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بتدریج وہ جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور آپ کا نظام اس کوڑے کے ڈھیر تلے دب جاتا ہے۔ بالآخر یہ نظام پوری طرح تباہ ہو جاتا ہے۔
کچھ ایسی چیزیں ہیں جنہیں اپناتے ہوئے آپ صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ صدی میں یہ دریافت کیا گیا تھا کہ کم خوراک چوہوں کی عمر بڑھا دیتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ایسے چوہے جنہیں سب کچھ ٹھونسنے کی آزادی ہو وہ ان چوہوں کی نسبت بہت جلد خرابیوں کا شکار ہو جاتے ہیں جنہیں مستقل طور پر زیادہ کھانے سے محروم رکھا گیا ہو۔ یہ جاننا بہت مفید ہے لیکن حقیقت میں کوئی بھی اپنی مرضی سے اپنی خوراک کم نہیں کرنا چاہتا۔
رائیک کہتے ہیں کہ کمزور بوڑھا خلیہ جو خرابی کے راستے پر گامزن ہے اسے بالکل ابتدائی شکل میں، اپنی اصلی حالت میں لوٹایا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے ہر فن مولا خلیے کو سٹیم سیل کہا جاتا ہے۔ اس کی مدد سے ایپی جینیٹکس گھڑی دوبارہ صفر پر ہو جاتی ہے۔
سٹیم سیل کے متعلق بہترین بات یہی ہے کہ یہ کچھ بھی کر سکتا ہے، کچھ بھی بن سکتا ہے: سٹیم سیل دل کا خلیہ بن جاتا ہے، یہ دماغ کا حصہ بن جاتا ہے اور اسی طرح کسی بھی چیز کا۔
جیسے جیسے خلیے بوڑھے ہوتے ہیں الگ اور متفرق ہونے لگتے ہیں، جس کے بعد وہ مخصوص ذمہ داریاں اپنے سر لے لیتے ہیں اور انہیں ادا کرتے ہوئے استعمال ہو کر پرانے ہو جاتے ہیں۔
لیکن Yamanaka factors (ایک جینیاتی شربت) کے نام سے معروف آب حیات کا معمولی ٹیکہ انہیں نشاۃ ثانیہ کے ہنستے گاتے انسان کے خلیوں میں دوبارہ تبدیل کر سکتا ہے جس طرح وہ اپنی پہلی حالت میں تھے (عرف عام میں induced pluripotent stem cells)۔
یہ بہت خوشگوار معلوم ہوتا ہے اگر آپ کا دھیان اس طرف نہ جائے کہ آپ اپنے سبھی بوڑھے خلیے دوبارہ سے نئے اور توانائی سے بھرپور بنا سکتے ہیں، انہیں دوبارہ پیدا کر سکتے ہیں، لیکن پھر آپ کی دل کی دھڑکن پر کس کا اختیار ہو گا، گھٹنے، آنکھیں اور منہ چھوڑیں دماغ میں موجود پرانے خلیوں کے متعلق کیا خیال ہے؟
وہ سبھی سخت جان خلیے رخصت پر کہیں اور نہیں چلے جاتے کہ وہاں جا کر خاموشی سے دوبارہ جوان ہونے کا انتظار کرنے لگیں۔ اس وقت تک ہرگز نہیں جب تک آپ دوبارہ کورے ذہن کی طرح کے بے ہیئت غیر متشکل بچے نہیں بن جاتے۔ یا بعد میں انکشاف ہو کہ آپ کا پرانا خلیہ کسی غدود یا انگلی کے ناخن میں تبدیل ہو گیا ہے۔
ان کی تجدید اور دوبارہ طاقتور بنانے کے لیے اب رائیک اور ان کی ٹیم نے ان خلیوں کا از سرے نو لائحہ عمل تیار کیا ہے لیکن دہرے طریقے سے تاکہ یہ دوبارہ سے فعال کردار ادا کریں مطلب جلد کے پرانے خلیے کو لے کر اسے سٹیم سیل میں بدلنا (اسے فعال کرنا) لیکن اسے پھر جلد کے خلیے میں بدلنا (غیر فعال کرنا) لیکن اس طرح کہ یہ اب بالکل نیا اور پہلے کی نسبت بہتر ہو۔
تب آپ کو بس اتنا کرنا ہے کہ اس خلیے کو دوبارہ اسی جگہ داخل کرنا ہے جہاں سے یہ آیا تھا اور نئے سرے سے اسے وہاں رہنے دینا ہے تاکہ یہ دوبارہ فعال ہو سکے۔
اچھا فرض کر لیتے ہیں مثلاً آپ کا دل خرابی کا شکار ہے۔ آپ کو کیا کرنا ہو گا؟ آپ پرانا باہر نکال کر اس کی جگہ نیا رکھ سکتے ہیں، یہ تھوڑا پیچیدہ اور وحشیانہ عمل ہے لیکن ایسا ممکن ہے۔ یہ بنیادی انجنیئیرنگ ہے۔
لیکن اگر اس کے بجائے آپ دل کے چند خلیے نکال لیں، انہیں اصلی حالت میں بحال کریں اور دوبارہ اندر رکھ دیں؟ کیا یہ واضح طور پر زیادہ آسان نہیں ہو گا؟ یہی معاملہ پرانے گھٹنے اور کولہے کے خلیے تبدیل کرنے کا ہو گا۔جبکہ ہم باقی چیزوں کا ذکر کر ہی رہے ہیں تو دماغ کی بحالی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس سے پہلے کہ اس کی بتیاں بجھ جائیں مہربانی فرما کر اسے بھی چیک کروا لیں۔ مستقبل قریب میں جلی ہوئی جگہ پر نئی جلد کا اگنا ابھی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ مستقبل میں سرجری سیلولر انجینئیرنگ کے گرد گھومے گی۔