قاسَم عبداللہ کی حراستی موت! (دردناک داستان)

گودھرا سے گراؤنڈ رپورٹ: قسط 1؁

✍: سمیع اللّٰہ خان

میں اسوقت گودھرا میں ہوں، جہاں ايک شریف النفس مسلمان کو گائے کے گوشت کےنام پر مار ڈالا گیا، جب مجھے گودھرا سے فون آنے لگے تب میں کافی مصروف تھا لیکن اس واردات کی المناکی کو دیکھتے ہوئے میں صحیح صورتحال سمجھنے اور مظلوم متاثرین کا غم بانٹنے کے لیے سفر کر گودھرا چلا آیا، یہاں آکر زمینی جانچ کےبعد قاسَم کی موت سے متعلق جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ دل دہلا دینے والے اور خونچکاں ہیں، ان تفصیلات نے مجھے اندر تک ہلا کر رکھ دیا، ایسی بربریت سے کچھ انسان کسی ایک انسان کو موت کی نیند سلا سکتےہیں، یقین نہیں آتا ۔

قاسَم عبداللہ حیات، گودھرا کا رہنے والا ایک شریف النفس انسان تھا، وہ اپنے مزاج کی نرمی اور طبیعت کی ایماندارانہ جفاکشی کے لیے جانا تھا، وہ ایک سادہ لوح عام مسلمان تھا، قاسَم کی عمر ابھی صرف پینتیس برس تھی، اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، محنت کرکے وہ ان کا اور اپنا پیٹ پالتا تھا، لیکن قاسَم کو یا اس کے بچوں کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ 14 ستمبر کا دن ان کے لیے بھارتی اسلاموفوبیا کی تاریک رات ہوگی۔
ستمبر 14, قاسَم اپنی موٹرسائیکل کےذریعے سیوالیہ سے گودھرا آرہا تھا، اسی دوران گودھرا کے قریب ” بھامیا چوکڑی ” احمدآباد روڈ پر پولیس نے ایک ٹیم کےساتھ قاسَم کو گرفتار کرلیا، یہ گرفتاری گودھرا بی ڈویژن پولیس تھانے کی طرف سے ہوئی، جس کی بنیاد پولیس افسر ایچ۔این پٹیل، کو ملی ایک خفیہ خبر تھی، پٹیل کو مخبر نے بتایا تھا کہ قاسَم گائے کا گوشت لے کر جارہاہے، جس کےبعد پولیس کی ایک ٹیم نے جس میں کانسٹیبل سدھ راج گجیندر، سب انسپکٹر این آر راٹھوڑ، دیگر کانسٹیبلز رمیش نروتسی، سلیم میاں، بھاسکر مدھوکر، الکیش کمار اور گنپت بھیم سی، شامل تھے ۔
گرفتار کرکے قاسَم کو گودھرا کے بی ڈویژن پولیس تھانے لے جایا گیا، اس تھانے کا انچارج ایچ۔این پٹیل ہے، اور یہ اپنی انتہائی مسلم دشمن شبیہ کے لیے مشہور ہے۔
لیکن، جب قاسَم سے اس کے متعلقین ملنے پہنچے تو قاسَم نے انہیں بتایا کہ اسے پولیس تھانے سے پہلے علاقے کے مشہور گئو رکشکوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا جہاں اسے اُن گئو رکشکوں یعنی کہ سَنگھی دہشتگردوں نے بےرحمی سے پیٹا تھا، ان غنڈوں کے نام، پرگنیش سونی، پرتیک کھرادی ہیں ۔

یعنی کہ، گرفتاری کےبعد پہلے گئو رکشکوں کی ہندوتوائی عدالت میں پیش کیا گیا پھر پولیس تھانے لے جایا گیا، وہاں لے جاکر پھر بری طرح سے پیٹا جاتا رہا، یہاں تک کہ چھ گھنٹے گزر گئے، پھر فیملی کو گرفتاری کی خبر ہوئی ۔ گرفتاری کی خبر ہوتے ہی قاسَم کی بہن اور اس کا سالا، تھانے پہنچے، جہاں انہوں نے قاسَم کو بری طرح زدوکوب پایا، قاسَم نے انہیں کہا کہ مجھے بہت بے رحمی سے مارا جارہا ہے اس کے بعد اُسی رات قاسَم کا دوست ساحل اس سے ملنے پولیس تھانے پہنچا، اسے بھی قاسَم نے کہا کہ، اسے جیل میں جانوروں کی طرح مارا جارہا ہے۔

۱۵ ستمبر:
قاسَم کا سالا قاسِم تھانے گیا
اسے قاسَم نے بتایا کہ، یہاں مجھے بہت مارا جارہا ہے، اور میرے موبائل کے ڈائل پیڈ میں جو نمبرات سیو تھے ان میں سے کچھ نمبرات/نام اٹھا کر ان کے خلاف مجھے گواہی دینے کے لیے کہاگیا، ان میں بھی خاص طورپر مسلمان عورتوں کےخلاف مجھے بیان دینے پر مجبور کیا، اور جبراً ان کا نام ایف آئی آر میں شامل کردیا گیا ہے یہ بتاتے ہوئے کہ قاسَم نے پولیس کسٹڈی میں ان کےخلاف گواہی دی ہے، جب میں نے گواہی دینے سے انکار کیا تو مجھے پٹّے سے مارا ۔
اس دوران قاسَم نے متعقلقین کو یہ بھی بتایا کہ، سَنگھی گئو رکھشا کے غنڈے پولیس اسٹیشن میں بھی پہنچ کر اسے بےدردی سے پیٹتے ہیں ۔

۱۵ ستمبر کو پھر سے قاسَم کے بڑے بھائی بلال پولیس تھانے گئے، انہیں بھی قاسَم نے بتایا کہ بہت زیادہ پٹائی ہورہی ہے مجھے یہاں سے نکالو، اور تھانے کے عہدیدار ایچ۔این پٹیل نے مزید دھمکی دی ہےکہ: وِسرجن بندوبست سے آنے کےبعد تجھے الٹا لٹکا کر ماروں گا ۔
۱۵ ستمبر کی رات میں ساحل دوبارہ اپنے دوست کو چائے پہنچانے تھانے گیا، اسے بھی قاسَم نے بتایاکہ رمیش اور بھاسکر وغیرہ کانسٹیبلز آکر مجھے مار کے گئے ہیں ۔
*قاسَم نے متعلقین کو یہ بھی بتایا تھا کہ: یہ پولیس افسر ایچ۔این پٹیل کہتا ہے کہ ۔ میں نے لوناواڑا گجرات میں ایک کو انکاﺅنٹر میں ختم کیا ہے، اب یہاں گودھرا، گجرات، میں بھی ۔*

*قتل کی صبح*
ستمبر 16,
صبح ساحل چائے لے کر تھانے گیا، تو اسے واپس بھگا دیا گیا کہ ابھی چائے نہیں دینے کا۔
پھر دس بجے دوبارہ ساحل پولیس اسٹیشن گیا دوبارہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر پولیس والوں نے واپس بھیج دیا
پھر ساڑھے دس بجے ایک پولیس والا، سلیم نامی، قاسَم کے گھر پر آکر اس کے بڑے بھائی سے کہتاہے، کہ، بلال ! کچھ ایمرجنسی معاملہ ہے تمہیں پولیس اسٹیشن چلنا ہے، چلو جلدی ۔
پولیس اسٹیشن پہنچنے پر، پولیس کے افراد بلال کو بتاتے ہیں کہ، دیکھو تمہارے بھائی نے خودکشی کرلی ہے، یہ دیکھو ۔ بلال کے ساتھ ان کے خاندان کے بڑے ذمہ دار شوکت بھائی بھی تھے، وہ سب جانکاہ صدمے کے جھٹکے سے دوچار ہوئے ۔
اُس وقت پولیس تھانے میں ایچ۔این پٹیل سمیت دیگر کئی ضلعی سطح کے اعلیٰ پولیس افسران موجود تھے ۔
اس کے بعد ایس۔پی نے جوڈیشل مجسٹریٹ کو خبر دی ۔۱۲ بجے کے قریب مجسٹریٹ اور ایس ڈی ایم تھانے پہنچے اور پولیس والوں سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ، اسے (قاسَم) کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں کیوں نہیں پیش کیا ؟ اس کے بعد مجسٹریٹ اور پولیس والوں کی بند کمرے میں نجانے کیا میٹنگ ہوئی ۔
جس کےبعد پنچنامہ ہوا، اور لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ۔ اور پولیس نے یہ رپورٹ لکھی ہے کہ قاسَم نے جیل کے اندر خود ہی خودکشی کرلی ۔

خودکشی والی کہانی
بظاہر پولیس نے جو اسکرپٹ تیار کی ہے وہ خودکشی کی ہے، اور سرکاری زاویے سے، سی سی ٹی وی دیکھیں گے تو خودکشی کا دھوکہ بھی ہوگا ۔ ہم نے جیل کمروں کو دیکھنے والوں کے ذریعے پڑتال کی ہے، ان سبھی کا کہنا ہے کہ، جیل میں پھانسی لگا کر خودکشی کا کوئی چانس ہی نہیں ہے، پولیس یہ دکھلا رہی ہے کہ، قاسَم نے کسی رسّی یا چادر کو پھاڑ کر اسے کھڑکی میں باندھا اور پھر اس کا پھندا اپنے گلے میں لگایا، اور شدت سے کھینچ کھینچ کر اپنی جان لے لی ۔ اور یہ سب محض چار فٹ کی جگہ میں ہوجاتا ہے، تعجب ! جبکہ یہ جگہ لٹک کر جان دینے کے لیے ہرلحاظ سے ناکافی ہے، جس کے جواب میں پولیس کی منطق یہ ہےکہ، جب جان لینے کے لیے جگہ کم پڑرہی تھی تب قاسَم نے اپنے دونوں پیر موڑ لیے اس طرح اس کی جان نکل سکی ۔

یہ انتہائی غیرمعقول دلائل ہیں ۔
سی سی ٹی وی جو متعلقین کو دکھایا گیا وہ بالکل آدھا ادھورا ہے، یعنی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ قاسَم کے خود کو باندھنے سے شروع ہوتی ہے اور جان نکلتے ہی ختم ہوجاتی ہے، اتنا یقینًا دکھایا جارہا ہے، جو ان کے انتہائی قریبی متعلقین کو دکھایا گیا ہے اور انہوں نے مجھے بتایا ۔ لیکن وہ متعلقین خود ہی یہ مطالبہ کررہےہیں کہ قاسَم ازخود اپنی جان اس طرح لے لے یہ ناممکن ہے، چادر کاٹ کے رسی بنانا، پھر انتہائی ناقص جگہ میں خود کو موت کے لحاظ سے ایڈجسٹ کرکے اپنی جان نکالنا یہ اُس کی معمولی اور بھولی بھالی عقل سے بعید تر ہے، سی سی ٹی وی کا مکمل فوٹیج دکھاؤ کہ اس سے پہلے تم نے قاسَم کےساتھ کیا کِیا؟ اور جسم پر تھرڈ ڈگری سے بھی ہائی ٹارچر کےساتھ کیسی ذہنی اذیت سے گزار کر اسے اپنی جان لینے پر مجبور کیا؟ موت کےبعد کی فوٹیج بھی دکھاؤ کہ پھر تم نے کیا کِیا؟ لیکن یہ فوٹیج سامنے نہیں آئے ہیں ۔

آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ، سی سی ٹی وی ریکارڈ کے لحاظ سے، قاسَم کی موت رات میں ۳ بجکر ۲۱ منٹ پر ہی ہوگئی تھی، لیکن گھر والوں کو کب بتایا گیا؟ دن میں ساڑھے دس بجے کے قریب، اور جس رات کو قاسَم کی موت ہوچکی تھی اُسی کی اگلی صبح جب دو مرتبہ اس کا دوست ساحل اسے چائے۔ناشتہ پہنچانے گیا تھا تو اسے واپس بھگادیا گیا تھا… کیوں؟ لگاتار اتنے گھنٹوں تک پولیس تھانے میں اندر کیا چلتا رہا؟ کیا مٹایا گیا اور کیا کچھ گھڑا گیا؟
*کتنی ذلیل اور شرمناک حقیقت ہےکہ: قاسَم کو تین دنوں تک پولیس کسٹڈی میں عدالتی پیشی کے بغیر رکھا گیا، ایک مرتبہ بھی مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیاگیا، ناہی اس کا میڈیکل کرایا گیا، جبکہ یہ آئینی لحاظ سے اولین فریضہ تھا پولیس کا، مگر عدالت میں پیش کرنے کی بجائے قاسَم کو گئو رکشک سمیتی کے غنڈوں کے سامنے سَنگھی عدالت میں ضرور پیش کیاگیا ! یعنی گرفتاری کا مکمل مرحلہ غیرقانونی رہا۔ اور ہندوراشٹر کے مراحل کو فالو کرتا رہا. اگر واقعی وہ خودکشی کررہاتھا اور سب کچھ سی سی ٹی وی میں ریکارڈ ہورہا تھا تو کیا جان نکلتے وقت اس نے چیخ و پکار نہیں مچائی ہوگی؟ اُس وقت پولیس اہلکاران کہاں تھے؟

ہم نے مرحوم قاسَم کی، لاش کی تمام تر تصاویر دیکھی ہیں جو قریبی رشتےداروں کو دی گئی ہیں، لاش کی حقیقی صورتحال دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے، اور خون کھولنے لگتا ہے، مختصراً یہ کہ، جسم پر جابجا ایسے نشانات ہیں جیسے کسی پالتو یا جنگلی جانور کو بھی پیٹنے پر نہیں ہوتے، ایسا لگتاہے لگاتار اس بیچارے کو مسلسل تھرڈ ڈگری دی جاتی رہی، جسم کا رنگ تک اڑ گیا ایسے مارتے رہے، کئی انگلیاں بھی پھٹی ہوئی ہیں ! !!*

ان سب کو دیکھتے ہوئے ہمارا ماننا ہے کہ:
ایک شریف اور سادہ انسان کو اس طرح بربریت اور درندگی کا نشانہ بنا کر رکھا گیا کہ، اس کا دماغ ہی الٹ گیا، اور پھر اسے پولیس والوں نے ہی دھمکیاں دے دے کر اپنی جان لینے کی ٹریننگ دی، اور یہی بات پورا شہر کہہ رہا ہے، بعض لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ، سی سی ٹی وی سے یہ بھی سمجھ میں آتاہے کہ، قاسَم جب خود کو رسی سے باندھ رہا تھا تب اس کی نگاہوں سے ایسا لگتاہے کہ سامنے کھڑا کوئی اسے اشاروں سے ڈائریکشن بھی دے رہا ہو۔

قاسَم کو گرفتار کیا گیا مسلمان ہونے کی وجہ سے اور پولیس تحویل میں اسے درد و اذیت دے دے کر اپنی جان لینے پر مجبور کردیا گیا، ظلم کا ایسا خونچکاں واقعہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی سنا نہیں تھا، مجھے ایسا لگتاہے کہ اُس پولیس اسٹیشن میں موجود بھارتی پولیس اہلکاران مسلم دشمنی میں اس حد تک غرق ہوچکےہیں کہ ڈرائیکولا بن چکےہیں مسلمانوں کا بہتا ہوا خون اور اذیّت ان کی تسکین کا سامان بن چکی ہے، وہ لوگ کیسے ایک انسان کو ایسے بےدردی سے مارتے رہے اس کے جسم کو لگاتار دن و رات چھلنی کرتے رہے، اور پھر اسے خود کی جان لینے پر مجبور کرکے اسے اپنی جان لیتے ہوئے لائیو ٹیلی کاسٹ میں دیکھتے رہے اور مسلم دشمنی میں لت پت اپنی خونی ڈرایکولا والے ہندوتوا دل و دماغ کو جیسے آکسیجن فراہم کرتے رہے ۔
یہ سب دیکھنے کےبعد، بتاو کہ اس ہندوستان کو کیا کہوں؟ اس کے نظامِ حکمرانی کو کیسے پکاروں؟ اس کے عدالتی سسٹم اور پولیس راج پر اور کتنا یقین کروں؟ کوئی مجھے بتاؤ: میں خود کہہ دوں گا تو آپ کو ” جذباتیت ” لگے گی ۔

تاریخ میں محسن شیخ، حافظ جنید، پہلو خان، اخلاق دادری، سمیت قاسَم عبداللہ، سب درج ہورہےہیں، بھارت مودی راج میں مسلمانوں کےخلاف خون کی ہولی کھیلنے کا سرٹیفکیٹ بن چکا ہے، ایسے ظالم حکمرانوں اور اس کے درندہ صفت جلادوں سے کیسے مذاکرات اور کیسے سمجھوتے؟ اس قدر واضح اور ظالمانہ درندگی کےباوجود قاتل پولیس والوں کو کیا سزائیں ہوں گی؟ دیکھتے رہیں بھارتی جمہوریت کا جنازہ، لائیو:
جاری………………………

ksamikhann@gmail.com