’اب شادی اور عشق اپنے ہی شہر میں کیجیے، پیٹرول بہت مہنگا ہو چکا‘

’پیٹرول 137 کا ہو گیا۔۔۔‘ آج یقیناً آپ کو اکثر افراد یہ جملہ کہتے دکھائی دیں گے۔ یہ جملہ سوال بھی ہو سکتا اور غم کا اظہار بھی۔

اس اضافے کا اصل غم اس وقت مزید بڑھ سکتا ہے جب بیچ سڑک آپ کی بائیک رک جاتی ہے اور ’ریزرو‘ کا سوئچ آن کرنا پڑتا ہے۔ یا آپ کی گاڑی کی ریزرو کی لائٹ آن ہونے لگتی ہے۔پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گذشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور سنیچر کو ہونے والے بڑے اضافے کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی اکثر افراد کو خول اٹھ رہے ہیں۔اب گاڑیاں چلانے والے پیٹرول اور ڈیزل بھرواتے وقت اپنی جیبوں کو بھی دیکھتے ہیں اور مہنگائی میں مزید اضافے کا امکان پورے مہینے کے بجٹ کو خراب کرنے کے لیے کافی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اب بھی صارفین کے لیے ’ریلیف‘ کا خیال رکھ رہی ہے۔

 

اگر حالیہ اضافے سے متعلق جاری ہونے والے اعلامیے پر غور کریں تو اس میں وزارت خزانہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ‘حکومت نے عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کے باعث پیدا ہونے والے دباؤ کا سامنا کیا اور صارفین کے لیے ‘زیادہ سے زیادہ ریلیف’ فراہم کرنے کی کوشش کی۔’پاکستان میں تیل کی مصنوعات میں اضافے اور اس کے نتیجے میں بڑھتی مہنگائی پر تو پاکستان میں سوشل میڈیا پر آئے روز ٹرینڈز بنتے ہیں اور صارفین اس حوالے سے اپنی رائے اور غصے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔لیکن اس حالیہ اضافے کا اثر آپ کو اس وقت سوشل میڈیا پر جاری اس بحث سے ہی نظر آ جائے گا۔ لیکن اس بحث میں کودنے سے پہلے ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر اضافے کی وجوہات کے علاوہ کیا اس اضافے میں پاکستان کی حکومت کی کارکردگی کا بھی کوئی عمل دخل ہے؟ اور اس کے عام آدمی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

’مہنگائی اور افراط زر کی وجہ سے عام آدمی پر بوجھ کئی گنا بڑھ جاتا ہے‘
معاشی امور کے ماہر عابد قیوم سلہری نے بی بی سی کے اعظم خان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات تو واضح ہے کہ گذشتہ برس کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے لیے تیل پیدا کرنے والے ممالک نے طلب کے مقابلے میں رسد کم کر دی ہے جس سے ان مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔‘ان کے مطابق ’آئندہ سردیوں میں صورتحال مزید خراب نظر آئے گی۔‘

ادھر معاشی امور کے ماہر ثاقب شیرانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت سبسڈی نہیں دے پا رہا ہے جس کی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اثر براہ راست صارفین کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔‘ان کے مطابق ’پاکستان نے اگرچہ ان مصنوعات پر ٹیکسز کم عائد کر رکھے ہیں مگر عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے یہ اثر صارفین تک منتقل کیا جا رہا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ پاکستان میں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت کم ہیں مگر مہنگائی اور افراط زر کی وجہ سے عام آدمی پر اس کا کئی گنا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔‘

غریب اور امیر کے لیے تیل کی قیمت علیحدہ علیحدہ بھی ہو سکتی ہیں؟
عابد قیوم سلہری کے مطابق یہ ممکن ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ زیادہ آمدنی والے اور مہنگی گاڑیوں کے مالکان کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں زیادہ کر دی جائیں اور عام آدمی جیسے موٹر سائیکل، رکشے اور چھوٹی گاڑی والوں کے لیے سبسڈی کا اعلان کیا جائے۔ان کے مطابق ’حکومت کے لیے مہنگے داموں تیل خرید کر سستی قیمت پر دینے کا آپشن ناممکن ہو گا تو ایسے میں حکومت ایسے افراد کی ایک فہرست مرتب کر سکتی ہے اور گاڑیوں کی رجسٹریشن اور شناختی کارڈ نمبر سے عام آدمی کے اکاؤنٹ میں یہ سبسڈی ٹرانسفر کی جا سکتی ہے۔‘

’لینڈ کروزر اور موٹر سائیکل والے کے لیے یکساں قیمت پر پیٹرول کی فروخت تو معاشی انصاف نہیں ہو گا۔‘

کیا پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا موازنہ دیگر ممالک سے کرنا درست ہے؟
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے حکومت کی جانب سے ملک میں پٹرول کی خاص کر خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم قیمت کے دعوے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسے ان ممالک میں مہنگائی سے موازنے کو غلط قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت یہ موازنہ صرف پیٹرول کی قیمت پر کیوں کر رہی ہے؟

’حکومت کو یہ موازنہ تمام روزمرہ استعمال کی چیزوں پر کرنا چاہیے تو پھر پتا چلے گا کہ پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی کیا بلند ترین سطح ہے اور اس کے مقابلے میں دوسرے ملک خاص کر خطے کے ملک پاکستان سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔‘

انھوں نے کہا ’حکومت کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اس وقت چینی اور گندم کی قیمت انڈیا اور بنگلہ دیش میں کس سطح پر ہے اور ہم اس وقت کس قدر مہنگی گندم اور چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔‘

ڈاکٹر اکرام نے کہا یہ موازنہ اس لیے بھی صحیح نہیں ہے کہ صرف پٹرول کی قیمت کو الگ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے بحیثیت مجموعی معیشت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ضرورت کی چیزوں کی خریداری کا تعلق قوت خرید سے ہے۔ پاکستان میں قوت خرید کم ہوئی ہے جس کا تعلق ملک کی فی کس آمدن سے ہے۔ پاکستان کی فی کس آمدن کا موازنہ بنگلہ دیش اور انڈیا سے کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان اس لحاظ سے دونوں ممالک سے کتنا پیچھے ہے۔‘

’اب شادی اور عشق اپنے ہی شہر میں کیجیے، پیٹرول بہت مہنگا ہو چکا‘
پاکستان میں پیٹرولیم کی مصنوعات میں اضافے کے بعد سنیچر کی صبح سے ہی سوشل میڈیا اور خاص طور پر ٹوئٹر پر صارفین اس حوالے سے اظہار خیال کر رہے ہیں۔

مقامی ٹی وی چینل ہم سے وابستہ صحافی شفا یوسفزئی نے بڑھتی قیمتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ انھوں اپنی گاڑی میں پیٹرول ڈلوا کر اسے گھر کے اندر کھڑا کر دیا ہے۔

ایک صارف نے وزیر اعظم عمران خان کی ماضی کی حکومت کے خلاف ایک تقریر میں سے کچھ حصہ ویڈیو کی صورت شیئر کیا جس میں عمران خان کہہ رہے کہ ’جب حکمران کرپشن کرتا ہے، وہ آپ کے اوپر ٹیکس لگاتا ہے اس کی چوری کی قیمت ہم مہنگائی کے ذریعے ادا کرتے ہیں۔‘

اقصیٰ جمالی نے لکھا کہ ’آہستہ آہستہ یہ قیمت ہزار روپے فی لیٹر تک پہنچ جائے گی۔‘ایک صارف نے پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے پیش نظر یہ مشورہ دیا ہے کہ ’اب شادی اور عشق اپنے ہی شہر میں کیجیے، پیٹرول بہت مہنگا ہو چکا ہے۔‘’ان پاپولر‘ نامی صارف نے عمران خان کی تقریر کا صرف ایک جملہ شیئر کیا جس میں انھوں نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں ان کو رلاؤں گا۔‘