ہندوستان کی روح کیلئے جنگ
مضمون نگار: ششی تھرور
ترجمہ و تلخیص: ایڈوکیٹ محمد بہاءالدین ، ناندیڑ ،مہاراشٹر ا. (9890245367 📲)
آزادی ہند کی 71 ویں سالگرہ کا دن آیا اور چلا گیا۔ لیکن یہ موقع ہے جب ہمیں ہندوستان کے خیالات کو لوگوں کے سامنے ظاہر کریں۔ ہاں یہ آئیڈیا دو گروپ کے تخیلات کے بیچ کی لڑائی اب ہمارے سامنے ہے۔
اگر ان دنوں کے بارے میں دیکھا جائے کہ جب آزادی سے قبل ہماری آزادی کے لئے تحریک چل رہی تھی اس وقت بھی دو قسم کے خیالات والے لوگ ہمارے بیچ میں موجود تھے۔ ایک گروپ جس کی قیادت کی بنیاد مذہبی شناخت پر تھی اور اس بات پر وہ مصر تھی کہ قومیت کی بنیاد اسی پر ہو۔ جبکہ دوسرے گروپ کا یہ ایقان تھا کہ ہندوستان میں ہر ایک کی شمولیت ہو جو بلالحاظ مذہب و ملت اور عقیدے کے ہو۔ پہلے گروپ کے خیالات کی وجہ سے پاکستان کی بنیاد تھی جبکہ دوسرا گروپ کے بنیاد کی وجہ سے ہندوستان بنا۔ ہندوستان کا نظریہ ایک سدیمی ٹیگور کے مقولے پر مشتمل ہے۔ جو کسی نہ کسی طرح مدلل و معقول بنیادوں پر روایتی ہی نہیں بلکہ قرون وسطیٰ کے پہلے نظریات پر مشتمل ہے۔ بہرحال ہندوستان کا نظریہ جو جدید قومیت کی بنیاد بنا ہے وہ انسانی حقوق کی بنیاد اور شہریت کے سخت گیر اصولوں پر مبنی قانون کے ذریعہ سے بنا ہے۔ جس میں قانون کی برابری سب کے ساتھ رکھی گئی ہے اور اس کا تعلق جدید نظریہ سے بھی متعلق ہے۔
ٹیگور کے عارفانہ نظریات سے اخلاقی طور پر گاندھی جی متاثر تھے۔ اس طرح مضبوطی سے یہاں سیکولرازم کی بنیاد پڑی اور سوچنے اور دیکھنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے اسے اپنایا۔ خصوصاً بی آر امبیڈکر، جواہر لال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل قابل ذکر ہیں۔ ہندوستان کے دستور کے دیپاچہ میں ہندوستانی جمہوریہ کی امتیازی خصوصیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس میں انصاف، آزادی، مساوات اور برادرانہ بھائی چارگی کا مضبوطی سے اظہار کیا ہے جس کی بناءپر قانون سازی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود یہاں کے ہر مذہب کو اپنے مذہب کی اتباع کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
ہندوستان کی جمہوریت شہریوں پر کوئی تنگ نظری یا اتباع کرنے کی پابندی عائد نہیں کرتی۔ ہندوستان کی تکثیریت کا اظہار بیشمار چیزوں سے ہوتا ہے وہ اس طرح کہ آپ یہاں اچھے مسلمان، اچھے کیریلین اور اچھے ہندوستان بیک وقت رہ سکتے ہیں۔
ہندوستانی نظریہ جس کے لئے میں مدلل طور پر کہتا ہوں کہ یہاں بحیثیت قوم ایک دوسرے کے ساتھ باوجود ذات، پات ، مسلک، رنگ، عقیدے کے ہم راضی بہ رضا ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی تہذیب ، کھانے پینے کا طریقہ، رسم و رواج و پہناوے ایک دوسرے سے مربوط رہتے ہیں اور ہم سب اتفاق رائے سے یہاں رہتے ہیں اوریہ اتفاق رائے کی بنیاد وجہ یہاں کی جمہوریت ہے۔ سوائے اس کے آپ یہاں قانوناً کسی بات سے اختلاف بھی کرسکتے ہیں۔
میرا ہندوستان کا جو نظریہ ہے وہ ایک مشہور تکثیریت میں وحدت ہے۔ اگر امریکہ کو Melting-pot کہا جاتا ہے اس طرح میرے کہنے کے مطابق ہندوستان بھی ایک تھالی کی طرح ہے جس میں مزیدار ترکاری، دال، مختلف کٹوریاں جن کے الگ الگ ذائقے و مزے ہوتے ہیں اور کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک کٹوری دوسرے کے ساتھ مل جائے لیکن اس کے باوجود یہ ایک ہی پلیٹ میں رہتے ہیں۔ اس طرح یہ مختلف اجزاءایک دوسرے کی تکمیل کے لئے بنے ہیں۔
ہم میں سے بہت سے لوگ اس بات کے قائل ہے کہ یہاں کی ناقابل تبدیل شکل عالمی سطح پر جانی مانی جاتی ہے۔ لیکن ہم محمد علی جناح کی مسلم لیگ کے وقت میں غلطی کر بیٹھے۔ جس نے بدنام زمانہ پاکستان کی قرارداد 1940ءمیں منظور کی۔ اس طرح نامناسب طریقہ پر اور بے رحمانہ تنقید کا ہمارا ملک شکار بنا۔ جبکہ ہندو مہاسبھا نے 1937ءمیں ہی اپنے اس نظریہ کو پیش کیا تھا کہ ہندو، مسلم دو علیحدہ قومیں ہیں۔ موجودہ برسراقتدار بی جے پی آر ایس ایس ہی کا ایک حصہ ہے۔ جس کا ہندوتوا کی بنیاد پر ایقان ہے اور وہ سب اس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ یہ ہندو راشٹریہ ہے یا ہندو نیشن اسٹیٹ ہے۔ لیکن اس قسم کا نظریہ ہندوستان کے نظریہ کے مطابقت میںنہیں ہے۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ یہ تقسیم کرنے والا نظریہ ہے نہ کہ شمولیت والا نظریہ۔ جس میں شدید قوم پرستی اور تکثیریت سے عدم تحمل اور اختلافات پر مشتمل ہے۔ بی جے پی آر ایس ایس کا ہندو راشٹریہ کا نظریہ پاکستان کے نظریہ کا آئینہ دار ہے۔ وہ ریاست جہاں مذہبی اکثریت اقلیتوں کو اپنے سے کمتر درجہ دیتی ہے۔ گویا ایک طرح کا یہ بھی ہندوتوا پاکستان ہوگا۔ یہ وہ ملک نہیں ہے جس کے لئے ہم نے آزادی کی تحریک چلائی تھی اور نہ ہی وہ نظریہ ہے جس کا ذکر ہندوستانی دستور میں پیش کیا گیا ہے۔
یہ ہندوستان کی روح کے لئے جنگ ہے۔ ہندوستانی دستور کے قائدین ان کے خوابوں و خیالوں کی وجہ سے اس دستور کے ذریعہ نظریات کو پروان چڑھانے کے لئے انہوں نے دستور بحیثیت پروانہ ہمیں عطا کیا ہے۔ ہمیں کم سے کم سات دہوں کے بعد ان کی فتح جیت کو نیچے نہیں گرنے دینا چاہئے اور نہ ہی ہمیں پاکستان کے نظریہ کے مطابق ہندوستان کو ان نظریات کے سامنے حوالے کرنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔