ہم جنس پرستی فیصلہ پر مختلف مسلم تنظیموں اور رہنماؤں کی برہمی
ہندوستانی تاریخ میں آج سے زیادہ سیاہ دن شاید ہی کبھی کا رہا ہو جب فطرت سلیمہ کو مسخ کرنے والے چند اباحت پسند و ذہنی مریضوں کے اصرار و تقاضہ پر ملک کی سب سے عظیم ترین عدالت نے gay sex ہم جنس پرستی کو جواز بخش دیا ہے ۔۔۔یقینا نا صرف یہ افسوس ناک ہے بلکہ آخرے درجہ کی خباثت ہے جس کو قابونی حمایت دے دی گئی ہے ۔۔۔۔جنسی تقاضہ ایک فطری عطا ہے جو ہر انسان کو منجانب اللہ ودیعت کیا گیا ہے ۔۔۔اس تقاضہ کو صحیح طریقہ سے پورا کرنے کی بھی متعدد مذاہب میں تعلیم دی گئی ہے خود مذہب اسلام نے نکاح کو آسان بنانے اور عام کرنے کی تلقین کی ہے نیز اس کے غیر فطری تقاضوں کی روک تھام کے لئے کوششیں بھی ہیں ۔زناء اور لواطت جیسے شنیع عمل سے معاشرہ کو پاک کرنے کے لئے جو حدود متعین کئے گئے ہیں اس کے پیچھے بھی یہی سوچ کار فرما ہے ۔۔ہم جن پرستی ایک ایسا مکروہ عمل ہے جس کو اس روئے زمین پر سب پہلے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے انجام دیا جس کی پاداش میں انہیں بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑا ۔۔اس عمل پر ان کو اتنا اصرار تھا کہ باوجود نبی اللہ کی تعلیمات کے انہیں کے سامنے وہ اس عمل کو انجام دیتے تھے اور ذات باری تعالی کو غضب ناک کرتے تھے ۔۔پھر جب پکڑ آئی تو ایسی آئی کہ وہ آج تک دوسروں کے لئے جائے عبرت بنے ہوئے ہیں ۔۔پتھروں کی بارش اور تباہ کن زلزلوں نے ان کی بستی کو زمین دوز کردیا ۔۔تاریخ کے صفحات سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم لوط جہاں آباد تھی آج اس جگہ بحر مردار( Dead sea) کی خطرناک موجوں کا قبضہ ہے ۔۔آج بھی اس کے اطراف و اکناف میں نحوست کا سایہ اور عبرت کی فضا قائم ہے جو وہاں جانے والوں کے دلوں پر ہیبت طاری کردیتا ہے ۔۔۔۔اس قوم کی تباہ کاری کے باوجود آج ہندوستان اسی راہ کا مسافر ہوگیا ہے اور جب اس کا راستہ بھی وہی ہے تو انجام بھی وہی ہوگا ۔۔۔ہم۔جنس پرستی کا مسئلہ پہلے بھی متعدد مرتبہ اٹھایا جا چکا ہے لیکن شاید اس وقت فطرت سلیمہ کے حامل ججز موجود تھے جن ہوں نے انڈین پینل کورڈ کی دفعہ 377 کو جاری مانتے ہوئے اس کی اجازت نہیں دی ۔۔لیکن آج اس دفعہ کو منسوخ کرکے ( جس کی روشنی میں ہم جنس پرستی ایک قابل تعذیر جرم تھا) نیا قانون لاگو کیا گیا ہے جس کی رو سے اس شنیع عمل کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔۔۔یہ ان لوگوں کے لئے تو بڑی فرحت و انبساط کی بات ہے جو اپنی بیویوں سے تسکین حاصل نہیں کرتے اور فطرت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے نا قابل تصور عمل میں مشغول ہوکر ہوس و خواہش بیجا کے غلام بنے ہوئے لیکن ان ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو قانون فطرت کے پابند ہیں ۔۔اس عمل کے بھیانک نتائج تو بے شمار ہیں لیکن ان میں ایڈز اور سوزاک جیسی مہلک بیماریاں بھی شامل ہیں جو متعدی بھی ہیں جن سے سارا معاشرہ تباہ ہوسکتا ہے ۔۔۔چونکہ ہندوستان ایک مذہبی ملک ہے اور یہاں متعدد مذاہب و ادیان کے پیروکاروں نے بود و باش اختیار کر رکھی ہے اور تمام ہی مذاہب کے یہاں اس خلاف فطرت عمل کے لئے کوئی گنجائش نہیں اس لئے سب کو بلا تفریق مذہب و ملت اس سلسلہ میں آگے بڑھنا چاہئے اور سماج و معاشرہ کو مٹھی بھر اباحیت پسند اور مردہ ضمیر لوگوں سے بچانا چاہئے کیونکہ یہ کوئی فراد واحد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پورے معاشرہ اور سوسائیٹی کا ہے جس کی حفاظت و صیانت کی ذمہ داری ہر شخص پر چاہے وہ کسی بھی دھرم و دین سے وابستہ ہو ۔۔۔۔اس سلسلہ میں ہر طرح سے کوشش کی جا سکتی ہے مقررین حضرات اس ایشو کو اپنا موضوع سخن بنائیں ۔۔قلم کار حضرات اس موضوع پر جاندار تبصرہ سپرد قرطاس کریں اور اہل اقتدار و ارباب حل و عقد اپنی سی کامیاب کوشش کریں اس لئے کہ کوشش و تگ و دو ہی کامیابی و کامرانی کا پیش خیمہ ہے ۔
(بصیرت فیچرس . عبدالمالک بلند شہری)
ہم جنس پرستی پر سپریم کورٹ فیصلہ
مشرقی دنیا کے لیے ناقابل قبول اور اذیت ناک: دارالعلوم دیوبند
دیوبند۔ ۶؍ستمبر: (رضوان سلمانی) دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے ہم جنس پرستی پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام مذاہب اور ہر مہذب معاشرے میں جنس پرستی ممنوع قرار دی گئی ہے۔ اخلاقی اور فطری طور پر یہ عمل ناپسندیدہ اور ناقابل قبول ہے۔ اسلام اس کو شدت کے ساتھ حرام قرار دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کے اس فیصلے پر ہم اس لیے کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے اس لیے کہ فیصلے کی کاپی ہمارے پاس نہیں ہے۔ لیکن جتنا خبروں سے معلوم ہوا ہے اس سے یہی قیاس کیاجاسکتا ہے کہ یہ مہذب معاشرے کےلیے یہ فیصلہ کم از کم مشرقی دنیا کے لیے یہ ناقابل قبول اور اذیت ناک ہوگا۔ مفتی ابوالقاسم نے اس سلسلے میں ہندوستان کے مہذب اور ذمہ دار افراد کو قانونی چارہ جوئی کےلیے کہا ہے۔
ہم جنسی کو قانونی جواز فراہم کرنا افسوسناک : مولانا اسرار الحق قاسمی
عدالتِ عظمی کے ذریعے دستور ہندکی دفعہ377؍دفعہ میں ترمیم کرکے ہم جنس پرستی کو قانونی جواز فراہم کیے جانے کو افسوسناک قراردیتے ہوئے معروف عالم دین وممبر پارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی نے کہاکہ عدالت کایہ فیصلہ آئندہ کے لئے اس ملک کے سماجی سسٹم اور اجتماعی ڈھانچے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔
مولانا قاسمی نے کہاکہ ہم صرف اس حیثیت سے ہم جنس پرستی کو غلط نہیں سمجھتے کہ اسلام نے اسے غلط قراردیاہے بلکہ عام سماجی نقطۂ نظر سے بھی ہم جنس پرستی ایک نقصان دہ عمل ہے اوراس سے خاندانی وعائلی نظام کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کا شدید خطرہ پیدا ہوجائے گا۔
مولانا اسرارالحق نے کہاکہ افسوس کی بات ہے کہ آج دنیاکی وہ قومیںجو اپنے آپ کو مہذب اور ترقی یافتہ سمجھتی ہیں،وہیں سے اس قسم کے قطعی غیر مہذب اور غیر فطری رجحانات پیدا ہوتے اور پوری دنیامیں پھیلتے ہیں۔انہوں نے موجودہ حکومت کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ بی جے پی کوچاہئے کہ اس حوالے سے اپنا موقف واضح کرے کیوںکہ ماضی میں بی جے پی اوراس کی ہمنواسیاسی و غیر سیاسی جماعتیں ہم جنس پرستی کی کھلی مخالف رہی ہیں،مگر ابھی جبکہ یہ جماعت حکومت میں ہے توایسا لگتاہے کہ سیاسی اغراض یا کسی دباؤ کے تحت وہ بھی ہم جنس پرستی کے جواز کی قائل ہوگئی ہے۔مولانا اسرار الحق نے کہاکہ ہمیں عدالت عظمی اور معززجج صاحبان کی دوراندیشی اور بصیرت پر اعتمادہے،ہم اپیل کرتے ہیں اورامید کرتے ہیں کہ وہ اس فیصلے کے عواقب و مضمرات پر غور کریں گے اور کوئی ایسی صورت نکالیں گے،جو ہندوستان کی ہزاروں سال کی مشترکہ سماجی تہذیب و ثقافت سے ہم آہنگ ہو اورغیر فطری نہ ہو.