ماں کی خدمت
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہُ سے فرمایا۔ عمر تیرے دور میں ایک شخص ہوگا جس کا نام ہے اویس اس
کا قبیلہ ہے مراد اور اس قبیلے کی شاخ ہے قرن۔ اس کا رنگ کالا ہوگا، قد درمیانہ اور اس کے جسم پر ایک سفید نشان ہوگا۔ جب وہ تم
سے ملے تو اس سے دعا کروانا اور علی تو بھی اس سے دعا کروانا۔ ذرا غور کریں کن سے فرمایا جا رہا ہے کہ دعا کروانا؟ عمر سے۔۔
جی ہاں عمر جن کے ایمان کے لیے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ جن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ عمر کی
زبان پر حق بولتا ہے۔ جن کی خواہش پر قرآن پاک کی سترہ آیات نازل ہوہیں جنہیں مواخاتِ عمر کہتے ہیں، جن کے دور میں ایک بار
زلزلہ آیا تو زمین پر کوڑا مار کر ارشاد فرمایا کہ کیا عمر تجھ پر انصاف نہیں کرتا تو زمین وہی ٹھر گئی۔ اور علی۔۔۔ کون علیٰ جنہیں اللہ
کے شیر کا لقب ملا۔ جو سرورِ کائنات کے داماد ہیں، جو جو خاتونِ جنت کے شوہر ہیں، جو سردارنِ جنت کے والد ہیں۔ اور جن کے ہاتھ
پر خیبر فتح ہوا، جو اہلبیت اطہر میں سے ہیں۔
جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہُ کا دور آیا تو وہ اویسِ قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہُ کی تلاش کرواتے رہتے۔ ایک بار حج کے موقح پر
آپ نے تمام حاجیوں کو جمع کیا اور کہا کہ سب کھڑے ہوجائیں تو سب کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا جو یمن سے ہیں وہ کھڑے
رہیں باقی بیٹھ جائیں۔ پھر آپ نے کہا جو مراد سے ہیں وہ کھڑے رہیں باقی بیٹھ جائیں۔ پھر آپ نے فرمایا جو قرن سے ہیں وہ کھڑے
رہیں باقی بیٹھ جائیں تو صرف ایک شخص کھڑا رہ گیا۔ آپ نے فرمایا تو قرن سے ہے تو اس نے کہا جی۔ آپ نے کہا اویس کو جانتے ہو۔
اس نے کہا جی بلکل جانتا ہوں میرا سگا بھتیجا ہے لیکن آپ کو اس سے کیا کام پڑ گیا وہ تو تھوڑا پاگل سا ہے تو حضرت عمر رضی
اللہ تعالٰی عنہُ رونے لگے اور فرمایا کہ وہ پاگل نہیں تو پاگل ہے۔ پھر پوچھا کے وہ حج پر آیا ہے تو اس شخص نے کہا کہ آیا ہے اور
عرفات کے میدان میں اونٹ چَرا رہا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہُ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہُ کو ساتھ لیا اور عرفات کی طرف دوڑے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک
شخص درخت کے نیچے نفل پڑھ رہا ہے اور اس کے گرد اونٹ چَر رہے ہیں۔ آپ دونوں بیٹھ گئے۔ اس شخص نے محسوس کیا کے کوئی
آیا ہے تو نماز مختصر کرکے سلام پھیرا۔ دونوں اصحاب نے پوچھا تو کون ہے تو کہا کہ جی مزدور ہوں۔ فرمایا تمہارا نام تو کہا کہ عبداللہ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہُ نے فرمایا وہ تو ہم سب ہی اللہ کے بندے ہیں تیرا وہ نام پوچھ رہا ہوں جو تیری ماں نے تیرا رکھا۔ اس
پر اویسِ قرنی نے فرمایا کے تم کون ہو اور کیوں مجھ سے پوچھ رہے ہو میں تو تمہیں جانتا تک نہیں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ
تعالٰی عنہُ نے فرمایا یہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہُ ہیں امیر المومنین۔ اور میں ہوں علی ابنِ ابی طالب۔ یہ سنتے ہی اویس
گھبرا گئے، سلام اور معذرت کی اور کہا کہ میں نے آپ کو پہچان نہیں سکا۔ حضرت عمر نے کہا کہ ہاتھ اٹھاؤ تو اویس رضی اللہ تعالٰی
عنہُ نے کہا کہ میں آپ دونوں کے لیے ہاتھ اٹھاؤں؟ میری ایسی اوقات کہاں کے آپ کے لیے دعا کروں۔ تو حصرت عمر رضی اللہ تعالٰی
عنہُ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اویس ملے تو اس سے دعا کروانا کہ اس نے اپنی ماں
کی ایسی خدمت کی ہے کے اب جب بھی وہ ہاتھ اٹھاتا ہے تو خالی نہیں لوٹایا جاتا۔
بس یہی نہیں، قیامت کے دن جب جنتی جنت میں داخل ہورہے ہوں گے تو۔ اللہ تعالٰی اویسِ قرنی کو روک لیں گے۔ وہ ڈر جائیں گے۔
جب سب لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالٰی فرمائیں گے۔ اویس وہ دیکھو سامنے جہنم۔ تم جتنے لوگوں کو شفاعت کرو
گے میں قبول کروں گا۔ جس طرف تمہاری انگلی اٹھتی جائے گی میں انہیں بخش کر جنت میں داخل کر دوں گا۔ یہ ہے صلہ ماں کی خدمت کا اور یہ ہے ماں کی عظمت.