کیا گائے کا گوشت کھانے سے کیرالہ میں سیلاب آیا؟

0 47

زمین سے 400 کلومیٹر کی بلندی پر خلا میں معلق بین الاقوامی خلائی سٹیشن تقریـباً آٹھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دنیا کے گرد پرواز کررہا ہے۔

گذشتہ بدھ کو اس سٹیشن پر موجود امریکی خلا نورد رکی آرنلڈ نے امریکی ریاست ہوائی کے نزدیک سمندر میں بننے والے ایک زبردست طوفان کی تصویر کھینچی اور وہیں سے اسے سوشل میڈیا پر پو سٹ کر دیا۔ سمندر میں بننے والے اس طوفان کی تصویر پوری دنیا میں دیکھی گئی۔

امریکہ نے ہوائی میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا ہے۔ متاثرہ علاقوں سے ہزاروں افراد کو پہلے ہی نکال لیا گیا ہے۔ انتظامیہ نے طوفان سے نمٹنے کی پہلے ہی تیاری کر رکھی تھی۔

امریکہ اور یوروپ میں مصنوعی سیاروں کے سبب موسمیات کی پیش گوئی کا نظام اتنا سائنسی اور مستند ہے کہ بدلتے ہوئے موسم کی پل پل کی پیشگی کی خبر کئی ہفتوں تک کی دی جا سکتی ہے۔

وہاں آنے والے سمندری طوفانوں، ٹورنیڈوز، برفانی طوفانوں، خوفناک آندھیوں اور سیلابوں کی بالکل صحیح وارننگ وقت سے پہلے دے دی جاتی ہے۔ مقامی لو گ اور انتظامیہ وقت سے پہلے ہی ان قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ساری احتیاطی تدابیر کر لیتے ہیںIMAGES

ہندوستان اور پاکستان جیسے ممالک میں بھی سائنسی آلات اور سپر کمپیوٹر کے تجزیوں کی مدد سے موسم کی پیش گوئی کی جانے لگی ہے لیکن ابھی وہ اس میعار تک نہیں پہنچ سکے جس سے موسم کی بالکل صحیح اور مستند پیش گوئی کی جا سکے۔ موسم کی پیش گوئیاں عمومی نوعیت کی ہوتی ہیں اور اکثر آنے والی قدرتی آفات کی نوعیت اور شدت کا کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔

قدرتی آفات بالخصوص سمندی طوفان اور سیلاب اتنے تباہ کن اور خطرناک ہوتے ہیں اور انسان ان کے سامنے بالکل بے بس ہوتا ہے۔

ماضی میں جب علم اور سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تو ان قدرتی آفات کو ’خدائی قہر‘ اور ’گناہوں کا عتاب‘ قرار دیا جاتا تھا۔ دنیا کی مذہبی کتابوں اور روایات میں اس طرح کی داستانیں بھری ہوئی ہیں۔

ریاست کیرالہ جب پچھلے دنوں زبردست سیلاب کی زد میں آئی اور لاکھوں لوگ جب انتہائی مشکل حالات میں گھرے ہوئے تھے تو بعض ہندو رہنماؤں نے کہا کہ پچھلے سال کیرالہ کے لوگ ریاست میں گائے کے گوشت کا فیسٹیول منا رہے تھے۔ بھگوان کی طرف سے یہ اسی کا عتاب ہے۔ ریاست کے سب سے اہم مندر سبری مالا کے ایک پجاری نے کہا کہ مندر کی اصل عبادت گاہ میں خواتین کے داخلے کی اجازت دینے کے سبب یہ تباہی ہوئی ہے۔

قدرتی آفت ایک جغرافیائی اور ارضیاتی عمل ہے اور بیشتر معاملات میں ماہرین ان کے بارے میں پیشگی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے ممالک ان آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت اچھی طرح تیار ہیں۔ ان کے پاس نہ صرف وسائل ہیں بلکہ انھوں نے ان کا مقابلہ کرنے کے طریقے بھی وضع کر رکھے ہیں۔

اس کے برعکس انڈیا جیسے ممالک میں نسبتاً چھوٹی آفت بھی بڑی جانی اور مالی تباہی مچاتی ہے۔ قدرتی آفات میں ہر برس سینکڑوں جانیں جاتی ہیں اور لاکھوں زندگیاں تباہ ہوتی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب ملک کا سیاسی نظام ہے۔

اس نظام میں سیاسی قیادت صرف انھی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتی ہے جن سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو اور جن سے اسے آئندہ انتخابات میں ووٹ مل سکے۔

سائنسی ترقی، موسم کی بہتر پیش گوئی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری جیسے اہم معاملات میں اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ ان پر نہ صرف خاصے اخراجات ہوں گے بلکہ اس سے انھیں کوئی انتخابی فائدہ بھی نہیں ہونے والا ہے۔

جب تک ان قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک سانٹیفک اور جامع پروگرام اور منصوبہ نہیں تیار کیا جاتا عوام ان قدرتی آفات کے سامنے اسی طرح بے بس اور مجبور رہیں گے اور ماضی کی جہالت کی طرح مستقبل میں بھی ان آفات کو انسان پر ’آسمانی عتاب‘ اور ’انسانی گناہوں کی سزا‘ سے تعبیر کیا جاتا رہے گا۔