گیا سال پھر کبھی واپس آتا نہیں سن1439!

مفتی و قاضی سلیمان رحمانی(امام و خطیب مسجد بارہ امام کھڑکپورہ ناندیڑ)
محترم قارئین کرام اسلامی مہینوں کے اعتبار سے یہ مہینہ ماہ محرم الحرام کا ہے ،اسی مہینہ سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے امت محمدیہ پر بے شمار انعامات و احسانات ہیں ،ان انعامات و احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور اجر و ثواب کمانے کے کچھ خاص خاص مواقع و مواسم اپنے بندوں کو عطا فرمائیں ہیں ،حج و قربانی کا موسم ختم ہوتے ہی محرم الحرام کا مبارک مہینہ شروع ہوجاتا ہے،جسکو حدیث شریف میں (شہر اللہ )یعنی اللہ کا مہینہ کہا گیا ہے ،جو اس مہینہ کی فضیلت و عظمت کی دلیل ہے ،یقینا وہ لوگ خوش قسمت اور سعادت مند ہیں جو خیرات و برکات کے ان مواقع و مواسم کو غنیمت جان کر عبادات و طاعات میں ڈرف کرتے ہیں ،اور سچی و پکی توبہ کے ساتھ مالک حقیقی کی طرف رجوع کرتے ہیں ،
رمضان کے بعد سب سے افضل مہینہ محر الحرام کا ہے ،
حضرت علی ؓ سے ایک آدمی نے دریافت کیا کہ رمضان کے بعد اگر میں روزہ رکھوں تو کس مہینہ کا روزہ رکھوں ؟حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ میں آقاﷺکے پاس بیٹھا ہوا تھا ایک آدمی نے آپ ﷺ سے یہی سوال کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگر رمضان کے بعد روزہ رکھنا ہوتو محرم الحرام کا رکھنا کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے ،اور اس مہینہ میں ایک دن ایسا ہے کہ اس میں اللہ نے پہلے بھی بعض اقوام کے ساتھ خصوصی رحمت کا برتاﺅ فرمایا اور آئندہ بھی فرمائینگے ،اور وہ خاص دن دسویں محرم کا دن ہے جسکو عاشورا کہتے ہیں ،
یوم عاشورا کی اہمیت !
یوم عاشورازمانہ جاہلیت میں بھی قریچ کے نزدیک معظم و محترم دن تھاچنانچہ اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف چڑھانا جاتا تھا اور قریش اس دن کی تعظیم میں روزہ بھی رکھتے تھے ،آقا و کا دستور تھا کہ قریش ملت ابراہیمی کی طرف منسوب کر کے جو اچھے کام کرتے تھے ،ان میں آپ ان سے اتفاق فرمات اور شرکت بھی فرماتے تھے،اسی بناءپر قریش کے زیر انتظام خانہ کعبہ کی تعبیر میں بھی شریک رہے اور حج کیلئے بھی اپنے وفود بھی بھیجے اور اسی اصول کے تحت آپ قریش کیساتھ عاشورا (دسویں محرم )کا روزہ بھی رکھتے تھے لیکن دوسروں کو اسکا حکم نہیں فرماتے تھے، پھر جب ہجرت فرماکر آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں کے یہود کو بھی آپ نے عاشورا کا روزہ رکھتے دیکھا تو ابن عباس ؓ کی روایت کے مطابق آپ نے یہود مدینہ سے اسکی بابت دریافت فرمایا کہ (تمہاری مذہبی روایت میں )یہ کیا خاص دن ہے،اور اسکی کیا خصوصیت اور اہمیت ہے ،کہ تم اسکا روزہ رکھتے ہو ؟انہوں نے کہا کہ یہ ایک مبارک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی ؑکو اور بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تو حضرت موسی ؑ نے شکریہ کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا تو گویا حضرت موسی ؑ کی اتباع میں ہم اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ،آقاﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے پیغمبر موسی ؑ سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے ،اور ہم اسکے زیادہ حقدار ہیں کہ موسی ؑ کا اتباع کریں پھر آقاﷺ نے خود بھی روزہے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں،
عاشورا کے روزہ کا اہتمام !
رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ آپ ﷺ بکثرت نفلی روزے بھی رکھتے تھے،مگر نفلی روزوں میں سب سے زیادہ اہتمام دسویں محرم کے روزہ کا فرماتے تھے، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ مین نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی فضیلت والے دن کا بہت زہادہ اہتمام اور فکر کرتے ہوں سوائے اس دن یوم عاشورا کے اور رمضان المبارک کے ایام کے،
دسویں محرم کا روزہ اتنا اہم ہے کہ بعض صاحب کشف بزرگوں نے بیان کیا ہے کہ ان کے تجربہ میں یہ بات آئی ہے کہ دسویں محرم کو جنگلی جانور بھی جانتے ہیں اور دن میں کچھ کھاتے پیتے نہیں بلکہ دسویں محرم کا روزہ رکھتے ہیں،
فتح ابن شحرف بیان کرتے ہیں۔میرا دستور تھا کہ روزانہ چیونٹیوں کیلئے روٹی کے ریزے ڈالتا تھا چیونٹیاں ان کو کھالیتی تھیں ،مگر دسویں محرم کے دن وہ ریزے ایسے ہی پڑتے رہتے تھے چیونٹیاں انکو نہیں کھاتی تھیں،
ہر دن کے روزہ کا ثواب ایک مہینہ کے روزوں کے برابر!
محرم الحرام کے مہینہ کا ایک ایک روزہ کا ثواب ایک ایک مہینہ کے برابر ہے،چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ آقاﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے عرفہ کے دن کا روزہ رکھا تو اسکے دوسال کے گناہ معاف ہوجائینگے اور جس نے محرم کے مہینہ میں سے کسی ایک دن کا روزہ رکھا تو ہر روزہ کے بدلے تیس دن کے روزوں کا ثواب ملیگا ۔ آپ ﷺ نے یوم عاشورا کی صبح مدینہ کے ان بستیوں کی آس پاس کی جن میں انصار رہتے تھے قبیلہ اسلم کے ایک آدمی کے ذریعہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی کچھ کھایا پیا نہ ہو،وہ آج کے دن روزہ رکھیں اور جنہوں نے کچھ کھاپی لیا لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصہ میں کچھ نی کھائیں پیئں بلکہ روزوں داروں ہی کی طرح رہے
عاشورے کے دن کچھ انبیاءکرام پر اللہ کے انعامات!
حضرت امام غزالی ؒنے مکاشف القلوب میں دسویں محرم کے دن کچھ انبیاءکرام کو اللہ کی طرف سے انعامات و اکرامات سے سے سرفراز کئے جانے کا تذکرہ کیا ہے،
(۱)اسی دن حضرت آدم ؑکی توبہ قبول ہوئی (۲)اسی دن حضرت ادریس کو بلند درجات تک پہونچایاگیا،(۳)اسی دن حضرت نوح ؑ کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھیری،(۴)اسی دن حضرت داو¾د ؑ کی توبہ قبول ہوئی(۵)اسی دن حضرت سلیمان ؑ کے ہاتھ سے نکلا ہوا ملک واپس ملا،(۶)اسی دن حضرت یونس ؑ مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے،(۷)اسی دن حضرت ایوب ؑ کو بیماری سے شفا ملی ،(۸)اسی دن حضرت یوسف ؑکو قید سے رہائی ملی(۹)اسی دن حضرت موسیٰؑ اپنی قوم کولیکر دریا سے پار ہوئے اور فرعون اپنی قوم سمیت غرق ہوا۔(۰۱)اسی دن حضرت ابراہیم ؑ پیدا ہوئے ،اسی دن انہیں خلیل بنایا گیا اسی دن انہیں نار نمرود سے نجات ملی،
یوم عاشورا کے روزے رکھنے کے مراتب !
جب آقاﷺ نے یوم عاشورا میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول و معمول بنالیا اور مسلمانوں کو بھی اسکا حکم دیا تو بعض صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ اس دن(یوم عاشورا)کو تو یہود و نصاری بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ان شاءاللہ جب اگلا سال آئیگا تو ہم نویں محرم کو بھی روزہ رکھینگے، حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ آئندہ سال کے ماہ محرم آنے سے پہلے ہی آپ ﷺ اس دار فانی سے پردہ فرماگئے،اور اس طرح اس نئے فیصلے پر عمل درآمد آپ کی حیات طیبہ میں نہ ہوسکا لیکن ہم کو رہنمائی مل گئی کہ (یہود و نصاری )اس طرح کی مشابہت سے بچنا چاہیے،اسی مقصد کے تحت آپ ﷺ نے یہ طئے فرمایا تھا کہ ان شاءاللہ آئندہ سال سے ہم نویںمحرم کا بھی روزہ رکھیں گے، اور اسی طرح سے ہمارے اور یہود کے طرز عمل میں فرق ہوجائیگا،اور اگر نویں کو کسی وجہ سے نہ رکھا جاسکے تو اسکے بعد کے دن یعنی گیارھویں کو رکھ لیا جائے،
حافظ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ یوم عاشورہ کے روزے کے تین مراتب ہے،
(۱)صرف دس محرم کا روزہ رکھیں (۲)نویں یا دسویں محرم کا روزہ رکھیں (۳)دسویں محرم کا روزہ رکھیں،اور اسکے ساتھ یا تو نویں محرم کو شامل کرلیں یا پھر گیارھویں محرم کو شامل کرلیں،بعض روایتوں میں ہے کہ آقا ﷺ نے نے دوحکم فرمائیں ہیں،(ا)دس محرم کا روزہ رکھو (۲) یہودیوں کی مخالفت میں ایک اور روزہ رکھو خواہ نویں محرم کا ہو یا خواہ گیارہویں محرم کا ہوں۔
رزق میں وسعت و فراخی!
آقاﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دس محرم کو اپنے اہل و عیال کے کھانے ،پینے میں وسعت و فراخی سے کام لے ،اور کھانے پینے کی چیزوں میں اضافہ کرئے،تو اللہ تعالی اس دن کی برکت سے سال بھر رزق میں فراخی فرماتے ہیں اور اس کے رزق میں وسعت عطا فرماتے ہیں ۔
ماہ محرم کے غلط عقائد!
(۱)بعض لوگ ماہ محرم کو اور اسی طرح اس ماہ میں جو بچہ پیدا ہوتا ہے دونوں کو منحوس سمجھتے ہیں(۲)بعض لوگ ماہ محرم کے مہینہ میں منگنی ،شادی،بیاہ و دیگر تقریبات کو برا سمجھتے ہیں (۳)بعض عورتیں ان ایام میں مہندی لگانا و دیگر زیب و زینت اختیار کرنا برا سمجھتی ہیں، (۴)بعض لوگ نویں محرم کو عرفہ کا دن کہتے ہیں،عرفہ صرف نویں ذی الحجہ کا نام ہیں(۵)بعض مرد اور عورتیں اس ماہ میں نوحہ اور ماتم کرتی ہیں ،(۶)بعض لوگ ہر دسویں محرم کو تیر ،تلوار،لکڑی کے کرتب دکھاتے ہیں ،(۷)بعض لوگ دسویں محرم کو تعزیہ اٹھاتے ہیں ،ناچتے ہیں ، ڈھول تاشے بجاتے ہیں،اور بعض لوگ یا تو مصنوعی شیر بناتے ہیں ،یا پھر کچھ جوان بچے خود شیر بنتے ہیں ،ساری گلی سے ناچتے ہیں ،جسکو دیکھنے کے لئے عورتیں بھی جمع ہوتی ہیں ،اور اس جگہ کوگناہوں کا مجمع بنادیا جاتا ہے،ایسی محفلوں میں ساری کی ساری چیزیں شرکیہ ہی ہوتی ہیں،اس لے تعزیہ دیکھنا اور اس کے جلوس میں جانا یا پھر شرکت کرنا ناجائز اور حرام ہیں،
گیا سال پھر کبھی واپس آتا نہیں !
ایک بزرگ نہر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے ،وہاں سے ایک نوجوان کا گزر ہوا، تو اس نے ان بزرگ سے پوچھا کہ حضرت آپ یہاںکس کا انتطار کر رہے ہیں،بزرگ نے جواب دیا کہ مجھے نہر کے اس پار جانا ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ نہر کا سارا پانی گزر جائیں تو میںنہر کے اس پار ہوجا ﺅں،بزرگ کی بات سن کر نوجوان نے زوردور قہقہ لگاتے ہوئے کہا کہ حضرت یہاں بیٹھے بیٹھے آپ کی ساری زندگی تو ختم ہوسکتی ہے ،مگر نہر کا پانی کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتا ،تب ان بزرگ نے کہا کہ بیٹے یہی تو بات میں لوگوں کو سمجھانا چاہتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ گھر اور کاروبار کی ذمہ داریان ختم ہوجائیں ،مسائل و مشکلات حل ہوجائیں ،بچے برے ہوجائیں،بیٹی کی شادی ہوجائیں،یہ ہوجائے وہ ہوجائے،فلاں ہوجائیں ،جب یہ ساری چیزیں پوری ہوجائیگی تو ہم اللہ کے احکامات پر عمل کرنا شروع کردینگے ،زکوة،صدقات،عطیات ، دینے لگے گے ،نماز اور روزہ کا اہتمام کرنیگے،ائے میرے بیٹے زندگی تو ایک وقت پر ختم ہوجائیگی، لیکن مسائل کبھی ختم نہیں ہونگے،
قارین کرامہماری زندگی کے ابھی تک کتنے سال گزر گے لیکن ہم نے جتنی بھی محنت کی وہ ساری دنیا کے لئے کی ، آخرت کیلئے کیا ہی کیا ہے ہم نے ؟سن۹۳۴۱۔تو ہماری زندگی سے نکل چکا ہے، اب قیامت تک کبھی یہ سال لوٹ کر واپس نہیں آنے والا ہے،ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے گزرے ایام میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے،مگر آج بھی ہم سب نئے سال کی مبارکباد دینے میں لگے ہوئے ہیں، حالانکہ ہم میں سے کل آئندہ کسی نے نہیں دیکھا ہے،اسلئے ہم کل کے دھوکہ سے باہر نکل جائیں،رب کو راضی کرنا شروع کردیں ، چلئے آج ہی ہم سب پکا وعدہ کرتے ہیں کہ اس نئے سال سے لیکر موت کے آنے تک ہم کبھی اللہ کو ناراض نہیں کرینگے،شریعت پر چلے گے ،شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزارینگے،کسی لمحہ ہم اللہ کو ناراض نہیں کرنیگے ،ایک نیک متقی انسان بن کر ہم اپنی زندگی کو اختتام پذیر کرینگے۔اللہ سے دعا ہیکہ مالک کائنات ہمیں اس نئے سال کی قدر کرتے ہوئے ایک نئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائیں
Leave a comment