واجپائی کی گم گشتہ میراث و روایات
ساگاریکھا گھوش ( ٹائمز آف انڈیا 31 اگست 2018ئ)
ترجمہ و تلخیص: ایڈوکیٹ محمد بہاءالدین ‘ ناندیڑ مہاراشٹر (9890245367)
پچھلے پندرواڑے میں بی جے پی نے تمام تر کوششیں کیں کہ کس طرح سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے قد کو اتنا اونچا کیا جائے جتنا کے نہرو، گاندھی تھے۔ نہرو گاندھی کی یادداشت پھر سے ایک مرتبہ دوہرائی جائے۔ اس سلسلے میں واجپائی کے اسٹیچیو،میوزیم بنانے کے اعلانات اور اشتہار بازی کے ساتھ استھی کلش یاترا یا پھر واجپائی کی راکھ تمام ملک میں بھیج کر وہاں کے شہروں، روڈ کے نام واجپائی کے نام پر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ واجپائی کے وداعیہ کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پرائم منسٹر نریندر مودی نے ان کے جنازہ کے ساتھ پارٹی کے ہیڈکوارٹر سے لیکر ان کی آخری رسومات تک پیدل ساتھ دیا۔ لیکن ان تمام علامتی کاموں کے علاوہ کیا بی جے پی 21ویں صدی کے اوتار کی طرح تکثیری سماج کی نبض کو محسوس کرے گی ۔گوکہ واجپائی کا تعلق آر ایس ایس اور جن سنگھ کی تحریک کے ساتھ رہتے ہوئے وہ بنیادی طور پر سنت سوئم سیوک تھے۔ جنہوں نے اس بات کی کوشش بھی کی۔ لیکن کیا موجودہ سیاسی شناخت ہندو کشادہ ذہن کی ہے؟
اگر کیا ہے؟ ایک دلچسپ سوال ہے۔ کیا اگر واجپائی 2004ءکے الیکشن نہیں ہارتے تو کیا ہوتا؟ وہ اپنی پہلی میقات میں تنقیح کرتے ہوئے الزام لگاتے ہوئے راج دھرم نبھانے کو کہا۔ کیونکہ اس لمحے انہوں نے اپنے ضمیر سے کوئی مصالحت نہیں کی۔ جس کی مثال گجرات کے 2002ءکے موقع پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ لیکن اگر واجپائی 2004ءکے الیکشن جیت لئے ہوتے سیاسی طور پر وہ بمقابلہ 1999ءکے زیادہ طاقتور ہوگئے ہوتے۔ اور اس طرح وہ ایسی باتوں کو دبانے اور فرو کرنے میں زیادہ موثر ہوتے کہ کس طرح ہندوتوا والی ہارڈ لائن کو مضبوط ہونے نہ دے۔ بی جے پی کو جدید کشادہ ذہن والی شناخت دے دیتے۔ اس موقع پر واجپائی کی جو کامیابی سے ہندتوا موومنٹ کی تحریک وہ ایک طرح سے تاثیر گھٹایا کرتے ۔ واجپائی کا طریقہ کار اپنی باتوں کو سر پر مسلط کرنا نہیں تھا بلکہ ان کی کارروائیوں کی مخالفت بھی نہیں ہوتی تھی۔ کیونکہ ان کے پاس ان کے تقریری اور معماتی شاعرانہ صلاحیتیں تھیں جس کے ذریعہ وہ تیزی کے ساتھ معاشی اصلاحات کی طرف راغب تھے۔ ان کی کمی اور کوتاہیوں کے باوجود واجپائی آر ایس ایس کے سنچالک کے سدرشن اور سودیسی جاگرن کے مقابلہ میں انہوں نے ان کی پیش کی ہوئی معاشی اور تہذیبی معاملات کوقبول کرنے سے انکار کیا۔ واجپائی ہندوتوا یا ہندو راشٹریہ کے معاملہ کو تحلیل کرتے رہتے۔ تاکہ دوسروں تک بھی وہ پہنچ سکی۔ خواہ وہ کشمیری ہو یا پاکستانی۔ لیکن واجپائی کے لئے ہندو موومنٹ گو کہ کامیابی تھی لیکن ا س کا درجہ دوسرے نمبر پر آتاہے۔ سیاسی مرکزیت کا معاملہ ساری دنیا میں پھیلتا جارہا ہے اور اس میں شدت بھی آرہی ہے۔ حتیٰ کہ سو یڈن اسٹیٹ یا جہاں الیکشن ہونے والے ہیں وہاں بھی Anti-Immigrant معاملات کو سویڈن کی ڈیموکریٹ پارٹی اٹھاتے ہوئے اسے نازی خیالات تک پہنچارہی ہے۔ حکومتوں کی روایتی تحریکیں Nationalist,Populist اور دیگر اخراجی ایجنڈے دائیں بازو کی پارٹیوں نے شدت کے ساتھ بطور نظریہ کے اپنانا شروع کیاہے۔ گویا کہ Anti-Immigrant یا Anti-Minoraties کی قومی جنگ کی آواز ہر جگہ سننے کوملتی ہے تاکہ دائیں بازو کی جماعتیں اپنے ووٹوں کی حفاظت کرسکیں۔ لیکن واجپائی کے زمانے میں انہوں نے ایک عظیم تر اتحاد میں اپنی پارٹی کو ناوابستگی کی حدود میں ہی رکھا تھا۔ لیکن آج اس قسم کی کوئی اپیل و لحاظ نہ کرتے ہوئے اب موجودہ اتحاد کی تمام دائیں بازو کی جماعتوں کو سخت گیر اور تشدد پسند نعرے بازی کی طرف لے جانے کی چھوٹ دی جارہی ہے۔ تاکہ زمینی سطح پر یہ سولجرس کے ذریعہ غصہ ور ووٹرس کو متاثر کرسکیں۔ یہاں چند سوالات ہیں جو پارٹی کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے۔ اگر وہ چاہتی ہے کہ واجپائی کو سچی خراج عقیدت پیش کرے تو انہیں تعمیرات، اسٹیچیو اور ناموں کی تبدیلی نہ کرے۔ کیونکہ خود کیا واجپائی نے کبھی اس کی ضرورت کو محسو س کیا کہ وہ مغل سرائے کا نام دین دیال اپادیے رکھے یا اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کرے۔کیا واجپائی نے کبھی اس بات کی کوشش کی کرسمس کا دن جو خود ان کی یوم پیدائش کا دن ہے اسے گڈگورننس کا نام دے۔انہوں نے کبھی افطار پارٹی میں شامل ہونے سے انکار کیا؟ واجپائی خود ایک نان ویجیٹرین کی غذا کے عادی تھے کیا کبھی انہوں نے بیف پر پابندی لگانے کی کوشش کی؟ کیا انہوں نے کبھی اپنے وزراءکو رام زادوں اور حرام زادوں کا لفظ استعمال کرنے کی اجازت دی؟ یا پھر انہیں دھمکیاں دینے پاکستان جانے یا پھر سزا یافتہ لوگوں کی گلپوشی کرنے جو عمومی تشدد کا شکار تھے ان کے بارے میں کبھی ایسی چھوٹ دی۔ واجپائی اپنے ناقدین کو تنقید کرتے ہوئے کبھی اینٹی نیشنل کہا؟ کیا واجپائی نے کبھی گﺅ رکشکوں کو ایسا محسوس ہونے دیا کہ انہیں قتل کا لائسنس ملا؟ یا کسی مجموعہ کو لو جہاد کے نام پر ایسی اپنی آمادگی کا کبھی اظہار کیا؟ کیا واجپائی غیر فعال پارلیمنٹرین تھے؟ کیا انہوں نے کبھی لیجسلیچر کی بحث میں سختی و نازیبا الفاظ کا استعمال کیا؟ کیا کبھی انہوں نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر کسی کو مجبور کیا؟ لیکن جدید شناخت اس تسلسل سے بی جے پی سے بچ نکلنے کی کوشش میں ہے۔ لیکن جب تک ان کا انحصار دوسروں پر ہے۔ جو ان کے اپنے اندر شامل ہے اور جن کی آئیڈیالوجی ہندو اسٹیٹ پر مشتمل ہے۔ بنگال میں وہاں کی روایتی جاگیردارانہ قیادت کو وہاں کے کیڈر نے ہی زمینی سطح پر کام کرتے ہوئے غارت کیا۔ واجپائی 2004ءمیں الیکشن جیتنے میں ناکام رہے اور بہت ہی مختصر مدت کے لئے قیادت سنبھالتے ہوئے آر ایس ایس سے انہوں نے مقابلہ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے 2000ءکے بعد سے تنظیم کو نئی شکل دینا ترک کردیا۔ شائد انہیں اس بات کا احساس ہوچکا تھا کہ ان میں اب وہ صلاحیت باقی نہ تھی کہ جو سنگھ کے باغی لوگ تھے انہیں وہ کنٹرول کرسکیں۔
2004ءکے الیکشن میںمنتخب ہونے کے لئے انہیں اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ ووٹرس کو بہا لے جاتے۔ جس میں بہت سے لوگوں کو گجرات کی وجہ سے متاثر تھے۔ اس لئے انہیں راج دھرم کو نبھانے کی اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت تھی۔ بشمول اس کے وہ حکومت کے طریقے کو اپنی تعلیمات کے ذریعے ہی بدلنا چاہتے تھے۔ اگر وہ انتخاب جیت بھی جاتے ان کا راج دھرم سب پر بھاری پڑتا۔ لیکن تاریخ نے بی جے پی کو اور واجپائی کو اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ واجپائی بی جے پی کے جدید طرز کے نمائندہ تھے۔ جو پارٹی کو نیا روپ دینا چاہتے تھے۔ تاکہ وہ مرکزیت کو بند ذہنیت سے چھٹکارا دلانا چاہتے تھے اور اس طرح وسیع تر میدان میں ووٹرس کو لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن آج بی جے پی جب ان کے انتقال کے بعد ان کا غم مناتے ہوئے پارٹی کو اکیسویں صدی میں جارحانہ طور پر اوتار کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے واجپائی کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر سابقہ پرائم منسٹر اس وقت زندہ ہوتے اور اگر وہ بی جے پی کے رہنمائی کرنے والی کمیٹی کے ممبر رہتے اور صرف اپنے آپ کو پبلک لائف سے محدود کرکے رہے ہوتے جیسا کہ ایل کے اڈوانی ہیں کیا وہ ایسا رہ سکتے تھے؟ واجپائی کی عظمت اور ان کے انتقال کے بعد اس وجہ سے اس طرح سے کمزور ہوتی جارہی ہے کہ اگر انہیں ان کی صحیح وراثت خود ان کی پارٹی میںملنا چاہئے۔