ہم جنس پرستی پرسپریم کورٹ کا فیصلہ افسوسناک:آل انڈیا امامس کونسل

0 104
نئی دہلی،۷ ستمبر(پریس ریلیز) آل انڈیا امامس کونسل کے قومی صدر مولانا محمد احمد بیگ ندوی نے ”ہم جنسی سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر پریس میڈیا سے بات کرتے ہوے کہا کہ : ”سپریم کورٹ صرف ایک کورٹ نہیں ؛ بلکہ وہ ملکی تہذیب وثقافت کا محافظ و امین بھی ہے۔ چند غیر مہذب عناصر کی وجہ سے انسانیت اور ملکی تہذیب کو برباد کرنے والا فیصلہ ”آزادی مہیا کرنا“ نہیں ؛ بلکہ نسل، سماج اور ملک کو تخریب کے راستے پر ڈال دینے کے مترادف ہے۔اور جب وہ آئین کے خلاف بھی ہو تو پھر چند نفس پرست اوباشوں کی درخواست پراس طرح کا فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے ؟ سپریم کورٹ کو چاہےے کہ اپنے غیردستوری، غیر فطری اور غیر ذمہ دارانہ فیصلہ پر نظر ثانی کرے اور آئین کے دفعہ 377 کو بحال کرے؛ تاکہ ملکی تہذیب و ثقافت اور آئین ہند کا تحفظ ہو سکے “۔قومی صدر مولانا احمد بیگ نے کہا کہ :”جب ایک عمل غیر فطری ہے، اس سے نسل اور سماج کا نقصان ہے اور کسی بھی مذہب و تہذیب میں اس کی اجازت نہیں ہے اور وہ ہندستانی دستور کے خلاف بھی ہے تو پھر اس پر جواز کی کیا صورت رہ جاتی ہے؟۔اس طرح کے فیصلہ سے انسانی دنیا میں جو تخریب کاری ہوئی اور سماجی نقصان اور انسانی بربادی ہوئی اور ہو رہی ہے ، اس کا تجربہ آج مغرب دنیا کر رہی ہے۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ضرور کسی سیاسی فائدہ کے تحت دیا گیا ہوسکتا ہے؛ اس لیے ہم اس فیصلہ کے فوری کالعدمی کا مطالبہ کرتے ہیں“۔کونسل کے قومی ترجمان اور قومی ناظم عمومی مفتی حنیف احرار سوپولوی نے کہا کہ : ”کورٹ کا یہ دلیل دیناکہ 20 طلبہ اور کچھ افراد کی درخواست پر اس طرح کا فیصلہ لیا گیا ہے بالکل غیر مناسب بات ہے؛ کیوں کہ چند چوروں کی درخواست ”چوری“ کو، چند زناکاروں کی درخواست پر ’زناکاری“ کو اور کچھ سماج دشمن عناصر کی درخواست پر ”سماج دشمنی“ کو کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ان سب کو قانونی جواز فراہم کرنا دراصل اپنے ہاتھوں سے اپنی نسل، قوم اور ملک کو آگ لگانے کے برابر ہے؛اس لیے آل انڈیا امامس کونسل مرکزی حکومت اور عدالت عظمی سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس فیصلہ کو فوراًکالعدم قرار دے کر ہندستانی عوام میں پائی جانے والی بے چینی کو ختم کریں اور تمام ہندستانی عوام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ بلا امتیازِ مذہب و مشرب اس غیر فطری اور نسل و قوم کو بربادی کے گڈھے میں دھکیل دینے والے فیصلے کے خلاف ساتھ آواز اُٹھائیں۔