ادب و تہذیب سے ہی معاشرہ قائم رہےگا

سعیدپٹیل جلگاؤں
آج کادور مقابلے کا دور ہے ،اسکول ،ہائ اسکول ،کالج ،یونیورسٹی غرض کے آج کوئ شعبہ ایسا نہیں ہے۔جہاں قابلیت کا مقابلہ نہ ہو ،اسی کے ساتھ قابلیت کا مقابلہ جعلی اور غیر معیاری پن اور اقرباپروری ،جانبداری جیسے حربوں سے بھی ہیں۔نئ نسل بالخصوص نوجوانان بےراہروی کا شکار ہیں۔درس گاہوں میں روزگار کی طرف لیجانے والی تعلیم دی جارہی ہیں۔تہذیب و تمدن نیز آداب زندگی کی تعلیم رسمی ہوکر رہ گئ ہیں۔ہم اپنے بچپن میں دنیا کو بہت بڑی کہتے تھے لیکن نیٹ کے دور میں دنیا بڑی ہوکر بھی ایک گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔دنیا کا سمٹ کر آجانا اپنے آپ میں ایک چمتکار سے کم نہیں ہے۔نسل نو سستی شہرت ،چمک دمک ،جلدی سے دولتمند بننا ، اپنوں سے بڑوں کی نافرمانی پھر چاھے والیدین ہی کیو ں نہ ہو ،سمجھ داری کا فقدان ہے۔انا پرستی عروج پر ہے ،سب مجھے ہی مل جاۓ کسی کو کچھ نہ ملے ،یہ جگہ یہ مقام ہمارا ہی ہے یہاں دوسرا کوئ نہیں آسکتا ۔وغیرہ وغیرہ حا لات سے معاشرہ دوچار ہیں۔آج ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہےکہ ہمارے پاس زندگی گذارنے کی تمامتر لوازمات موجود ہیں۔ہماری دینی اور دنیاوی اصلاح کے سارے ذرائع بھی اتم درجے موجود ہیں۔دینی اجلاس دینی اجتماعت کی کثرت ہے۔ پھر بھی سماج بیمار ہیں؟؟؟ہمارے دلوں پر گناہوں کے اثرات نمایا طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ہماری نئ نسل کس دور میں اور کیسے زندگی جینا چاھتی ہیں۔؟؟؟ہم نے جیسے جان بوجھ کر ہلاکت کے ذرائع اپنے آس پاس پیدا کرلۓ ہیں۔ہماری نسل نو پر کسی بھی اچھّائ کا اثر صرف رسمی طور پر دیکھائ دیتا ہے۔؟؟؟اصل میں انسان کو کوئ بری عادت نہیں پڑنی چاھۓ۔اچھّا ہے کہ ہم زمانئہ جاہلیت کے اندھرے میں نہیں ہیں۔ہم آج ایک روشن دور سے گذر رہے ہیں۔اس دور سے ہمیں بہت فائدہ اٹھانا چاھۓ۔اپنی اصلاح کرنی چاھۓ۔اپنی نسل نو کو تعلیم سے آراستہ کریں ،ان کی حسن تربیت اور اعلیٰ کردار ،آداب زندگی تہذیب وتمدن کے پاسدار بناۓ۔انھیں تعلیمات سے ہمارہ معاشرمعروفات پر قائم رہ سکیں گا۔؟