پیارے نبی سے محبت کو علم کی لگام دیجئے

*پیارے نبی سے محبت کو علم کی لگام دیجئے*

*🖋️اشفاق عالم عالیاوی*

ہمارا ایمان و ایقان ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کا حصہ ہے، ان کی اطاعت و فرمانبرداری ہم پر واجب و فرض ہے، بلکہ وہ ہم پر خود ہم سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ألنبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم وأزواجه أمهاتهم) [الاحزاب/6] پیغمبر مؤمنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور وہ چونکہ ہمارے روحانی باپ ہیں اس لئے ان کی بیویاں ہماری روحانی مائیں یعنی امہات المؤمنین ہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده و والده والناس أجمعين) تم میں کا ہر شخص اس وقت کامل مؤمن ہو سکتا ہے جب وہ اپنے باپ، بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت کرنے لگے۔

قارئین! کتاب و سنت میں ہمیں جہاں رسول سے اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبت کرنے اور چاہنے کی تعلیم دی گئی ہیں وہیں اس چاہت اور محبت کو علم کی لگام دینے کی بھی کہا گیا ہے۔ کیونکہ بسا اوقات انسان نبی کی چاہت میں اس طرح بہہ جاتا ہے کہ بہتے بہتے شرک کے درجے میں پہنچ جاتا ہے۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی مسئلہ میں میانہ روی اور توازن کو باقی رکھنے نیز غلو سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ پیارے نبیۖ نے فرمایا (إياكم والغلوا فإنما اهلك من كان قبلكم الغلو في الدين) غلو سے بچو اس لئے کہ تم سے پہلے امتوں نے دین میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک وبرباد ہو گئیں۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے غلو کو اہل کتاب کا مرض قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا (يا أهل الكتاب لا تغلوا في دينكم) اے اہل کتاب دین کے معاملے میں غلو کرنے سے بچو۔
حضرات قارئین! ایک مرتبہ ایک صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرط محبت میں یوں کہہ دیا (ما شاءالله وشئت) جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں، یعنی انہوں نے نبی کی مشیت کو اللہ مشیت قرار دیا۔ پیارے نبی نے جواب میں فرمایا (أ جعلتني لله ندا) کیا تم مجھے اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قُل ماشاء الله وحده) کہو کہ اللہ اکیلی ذات ہے وہ جو چاہے وہی ہوگا، اس کی مشیت میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا۔ ایک بار ایک صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یوں کہہ دیا (يا محمد يا سيدنا وابن سيدنا يا خيرنا وابن خيرنا) اے ہمارے سردار، اے ہمارے سردار کے بیٹے، اے ہم میں کا سب سے بہتر شخص اور اے ہم میں سب سے بہترین شخص کے بیٹے۔ یعنی اے نبی آپ ہم سے بہتر اور آپ کا خاندان اور قبیلہ تمام قبیلوں میں سب سے بہتر۔۔۔۔ پیارے نبیۖ نے فوراً فرمایا (ياأيها الناس عليكم بتقواكم لا يستهوينكم الشيطان و لا ترفعوا فوق منزلتي التي أنزلني الله) اے لوگوں تم پر احتیاط لازم ہے، کہیں تمہاری اس محبت کے راستے سے شیطان تمہیں گمراہ نہ کردے، مجھے میری عزت و منزلت سے زیادہ فضیلت نہ دو، بس اتنی فضیلت دو جتنی اللہ نے دی ہے۔
اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر کہتے ہوئے سنا (لا تطروني كما أطرت النصارى بن مريم فإنما أنا عبداللہ فقولوا عبدالله ورسوله) میرے تعلق سے اس گمراہی کے شکار نہ ہوجانا جس کے شکار نصاری ہوئے تھے، انہوں نے عیسی علیہ السلام کو ان کی محبت میں اللہ کا بیٹا مان لیا تھا لہذا تم لوگ اس مرض کے شکار نہ ہونا۔ کیونکہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اس لئے میرا پہلا تعارف یہ کرانا کہ محمد اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔ اسی طرح ایک لڑکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہ شعر کہنے لگی (وفينا نبي يعلم ما في غد) ہمارے درمیان ایک ایسا نبی ہے جو کل کی خبر آج بتا دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا اس لڑکی کو ٹوکا اور کہا کہ یہ کیا کہے جارہی ہو؟ پہلے جو اشعار کہتی تھی وہ کہو مگر اس طرح کے شرکیہ اشعار ہر گز نہ کہو۔ یہ اللہ کے ساتھ ظلم ہے۔
حضرات! اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کی محبت ہمارے ایمان کا عظیم سرمایہ ہے لیکن اس محبت کو غلو کی آمیزش سے پاک کرنے اور علم کی لگام دینے کی اشد ضرورت ہے۔ آج کے نت نئے دور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غلو کے مختلف مظاہر رونما ہو رہے ہیں۔ چند ایک مثالیں بطور نمونہ پیش کرتا ہوں۔
*نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بشریت کے درجے سے خارج کرنا:* نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں پہلا غلو یہ ہے کہ آپ کو بشریت کے درجے سے نکالا کر انہیں نور کہا گیا اور ان کا جنس تبدیل کیا گیا نعوذباللہ۔ جبکہ قرآن کریم میں دسیوں جگہ رسول کو بشر کہا گیا، انہیں کفار و مشرکین نے بشر جانا، ابو لہب و ابو طالب نے بشر مانا۔ حتی کہ کفار مکہ کہتے تھے (مال هذا الرسول يأكل الطعام ويمشي في الأسواق) یہ کیسا رسول ہے؟ کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا بھی ہے۔ یعنی پوری دنیا بشر مانتے تھے مگر آج کے نام نہاد مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غلو کا ایسا دریا بہایا کہ خود اس میں بہہ گئے اور انہیں احساس تک نہ ہوا۔
*نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں دوسرا غلو:* آپ مَرے نہیں ہیں بلکہ آپ پردہ فرما گئے، آپ وصال کر گئے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صاف طور پر کہہ دیا (إنك ميت وإنهم ميتون) اے نبی آپ کو بھی مرنا ہے اور لوگ بھی مریں گے۔ لیکن آج کے نام نہاد مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اتنا زیادہ غلو کر دئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مردہ ماننا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین سمجھتے ہیں۔
*نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تیسرا غلو:* قرآنی آیات کی غلط تفسیر اور غلط مطلب نکالنا: اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا (ومن الليل فتهجد به نافلة لك عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا) اے نبی آپ راتوں کو جاگ کر تہجد کا اہتمام کریں عنقریب آپ کو مقام محمود پر فائز کیا جائے گا۔ نبی کی شان میں غلو کرنے والوں نے مقام محمود کی تفسیر یوں کی کہ مقام محمود سے مراد رب کا عرش ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اپنے عرش پر بٹھائے گا نعوذباللہ۔ جبکہ صحیح احادیث سے پتہ چلتا ہے مقام محمود سے مراد مقام شفاعت ہے۔ قیامت کے دن جب سارے انبیاء معذرت کر لیں گے اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ریز ہو جائیں گے اس وقت عرش والا کہے گا (إرفع رأسك واشفع تشفع وسل تُعط) اے نبی اپنا سر اٹھائے اور مانگئے جو مانگنا ہے آپ کو دیا جائے گا۔ یہ ہے اس آیت کی صحیح تفسیر۔ لیکن غلو کرنے والوں نے اس آیت کی من مانی تفسر کرڈالی، ھداھم اللہ
*اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غلو کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ درود کے مختلف صیغے ایجاد کرنا:* اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا باعث ثواب ہے، بلکہ بخیل ہے وہ شخص جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنے اور ان پر درود نہ بھیجیں۔ مگر آج کے دور میں درود کے نام پر طرح طرح کے صیغے ایجاد کر لئے گئے ہیں جو نہ تو صحیح حدیث سے ثابت ہے اور نہ ہی ضعیف حدیث سے ثابت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان صیغوں میں شرک کی آمیزش ہے۔ لہٰذا لوگوں کے خود ساختہ درود سے بچنے ہیں۔
*اسی طرح غلو فی شانِ النبی کا ایک مظہر نعت گوئی ہے۔* اللہ کی تعریف میں جو اشعار پڑھے جاتے ہیں انہیں حمد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں جو اشعار کہے جاتے ہیں انہیں نعت کہے جاتے ہیں۔ شعراء کی اکثریت نعت میں غلو سے کام لیتی ہیں اور نوے فیصد شعراء نعت لکھنے اور پڑھنے میں الفاظ کی دنیا میں محو ہو کر شرک میں محو ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا نظم و نعت پڑھنے سے پہلے ہمیں ان کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایک شاعر کیا کہتا ہے آپ خود ملاحظہ فرمائیں۔
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
نہ بہتا سمندر نہ بہتا یہ پانی
نہ دریا کی موجوں میں ہوتی روانی۔
اس طرح کے اشعار کھلے شرک پر مبنی ہے۔ لہٰذا ہمیں نعت گوئی میں غلو سے بچنے کی اشد ضرورت ہے۔
*غلو کا ایک مظہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم پیدائش پر جشن منانا:* جشن عید میلادالنبی کے نام پر آج جو بدعات و خرافات انجام دئے جارہے ہیں ان کا دین سے کوئی واسطہ نہیں، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے، نہ تابعین نے، نہ تبع تابعین نے اور نہ ائمہ اربعہ و فقہاء کرام نے کسی نے بھی جشن میلاد کے نام پر کوئی جلوس نہیں نکالا تھا۔ لیکن آج نبی کی شان میں اس قدر غلو کے شکار ہو گئے کہ ان کے نام پر جلوس نکالے جاتے ہیں، بھیڑ جمع کرتے ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تو یہ ہے (أن من قطع الطريق فلا جهاد له) جس نے مسافروں کا راستہ روکا اس کا جہاد باطل۔ جس نبی کی یہ تعلیم ہو کہ راستہ روکنے سے جہاد باطل ہے اس نبی کے نام پر جلوس نکالنا کیونکہ جائز و درست ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کتاب و سنت کے دائرے میں رہ کر محبت کرنا چاہئے اور کسی بھی طرح کے غلو سے بچنا چاہئے۔ وفقنا اللہ تعالیٰ