واقعہ کربلا اور اس کے تقاضے بقلم عائشہ نبیلہ بنت شیخ محمود

محرم الحرام جیسے مقدس مہینہ کے ساتھ
اسلامی نیا سال ہم پر سایہ فگن ہو چکا ہے،
دینِ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو خود بھی امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے پیروکار سے بھی باہمی احترام کا تقاضہ کرتا ہے اور محرم الحرام تو اپنے نام ہی میں ’’حرمت واحترام‘‘ کے معنٰی رکھتا ہے۔
محرم الحرام تاریخِ اسلام کے بہت سارے واقعقات کو اپنے دامن میں سمائے ہوئے ہے۔
جن میں ‘واقعہ کربلا ‘ خورشیدِ درخشاں ہے، واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا حکمت آموز اور الم ناک ترین واقعہ ہے۔
غور طلب بات ہے کہ ہم واقعہ کربلا تو یاد رکھتے ہے لیکن اس کے مقاصد اور اس کے پیغام کی حکمتوں کو فراموش کئے بیٹھے ہیں۔
امتِ مسلمہ کا یہ المیہ بھی ہیکہ وہ ہر اسلامی واقعہ کے تقدس کو بالائے طاق رکھ کر ضمنی طور پر اس کو رسم کی شکل
دینے کی عادی ہو چکی ہے اور واقعہ کربلا بھی رسم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
ماہِ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ اس معرکہ کی یاد میں رسمی طور پر جلسہ و جلوس کرکے یہ اطمینان کرلیا جاتا ہے کہ ہم نے نواسۂ رسول سے وابستگی کا حق ادا کردیا۔
تاریخِ اسلام اپنے ہر واقعہ سے ہمیں عبرت و حکمت کا درس دیتی ہے عملی زندگی میں اس کے مظاہرے کا تقاضہ کرتی ہے۔
واقعۂ کربلا بھی ہم سے اسی عمل کا تقاضہ کرتا ہے ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ یہ معرکہ، حق و باطل کا معرکہ تھا۔
یہی حق و باطل کا معرکہ ہمیں اپنی عملی زندگی میں بھی اُسی عملِ حق کی دعوت دیتا ہے جو سید الشہدا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کے جان نثار ساتھیوں نے ادا کیا۔
ایک مسلمان کو دینِ حق سے اس درجہ وابستگی ہوکہ وہ حق کے لئے اپنی جان و مال کو قربان کرنے سے بھی گریز نہ کرے… اگر جان و مال دے کر حق کی حفاظت کی جاسکتی ہے تو اس میں کسی طرح کا پس و پیش نہ کریں۔
یزید کی بعیت کے وقت نظامِ شریعت دائرۂ اسلام کی حدود سے ہٹ رہا تھا حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ جانتے تھے کہ اس وقت یزیدیت کی مخالفت کرنا اور اس کے آگے ڈٹے رہنا حق اور وقت دونوں کا تقاضہ ہے، آپ نے جان و مال، عزیز و رفقاء کی قربانی دیں اور اپنے عمل سے بتایا کہ حق کےلئے قربانیاں دی جاسکتی ہیں، سرکٹایا جاسکتا ہے لیکن باطل کے آگے جھکنا ایمان والے کی شان نہیں۔
مومن کو موافق اور ناموافق دونوں حالات میں حق پر ہی رہنا ہے۔
عام طور پر موافق حالات میں تو ہم حق کو اپناتے ہیں لیکن جب حالات ناموافق ہو تو ہماری حق سے وابستگی کمزور ہوتی چلی جاتی ہے، پھر ہم باطل سے صلح کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ موافق حالات میں دین پر رہنا بہتر ہے لیکن ناموافق حالات میں بھی دین کا دامن نہ چھوڑنا مومن کا بہترین عمل ہے اور یہی اس کے ایمان کی تکمیل ہے۔ آج کتنے ہی مسلمان دین کا دعوٰی تو کرتے ہیں۔ لیکن اس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ ناموافق حالات کا شکوہ کرتے ہوئے اسلامی و ضع قطع کو ترک کردیتے ہیں۔
یزید کی بیعت کے وقت خوف کے مارے بیشتر لوگ سکوت اختیار کئے ہوئے حق سے ہٹ رہے تھے… وقت اور حالات بالکل مخالفانہ تھے لیکن فاطمۃ الزہراء کے لعل نے اس کی پرواہ نہ کی، انتہائی مخالفانہ ماحول میں بھی حق پر ڈٹے رہے۔ آج ہم دینی معاشرت اور تہذیب کو اپنانے میں اس لئے پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ لوگ کیا کہے گیں؟ ایک مومن کو چاہئے کہ وہ لوگوں کی باتوں یا نارضگی کی پرواہ کئے بغیر صرف اور صرف اللہ جل شانہُ کی رضا و خوشنودی کا سامان کرے۔
مومن کو حق کے تحفظ کے لئے ظاہری اسباب کو نہ دیکھتے ہوئے اللہ رب العزت کی رحمت اور اس کی مدد و نصرت پر یقین ہونا چاہئے۔ علمبردارانِ حق کبھی ظاہری اسباب تعداد و اسلحہ سے مرعوب نہیں ہوتے۔ پھر چاہے وہ میدانِ جنگ میں بے سروسامنی کے باوجود حق کا دفاع ہو یا تین سو تیرا کی قلیل تعداد کا ہزاروں پر بھاری پڑنا ہو… ان سب کی طاقت توكل على الله تھی ان کی فتح یابی ایمان کی کشش و قوت میں تھی۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ باوجود اس کے کہ ان کے حامیوں کی تعداد کم تھی، ان کے پاس اسلحہ و اسباب بھی کم تھے لیکن وہ دوشمن کے اسباب و وسائل اور مخالفت سے مرعوب نہیں ہوئے حق پر ڈٹے رہے۔ حکمِ خدا وندی پر عمل کرتے رہے۔
شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ تعالی عنہ اس بات کا بھی اعلان ہے کہ کامیابی و ناکامی کا تعلق ظاہری فتح و شکست سے نہیں، اصل فتح نیک نیتی سے ‘مقصد’ میں کامیابی ہے پھر چاہے وہ لڑتے لڑتے جان دینے سے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔

جگر گوشۂ علی و بتول امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے حسنِ عمل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پریشانی ہو یا خوشحالی ہر حال میں مومن احکامِ الٰہی کا پابند ہے۔ شدتِ آزمائش میں بھی وہ احکام الٰہی سے دست بردار نہیں ہوتے۔ عین حالتِ جنگ میں بھی آپ نے اسلام کے ستونِ دوم ‘ نماز ‘ کو ترک نہیں کیا۔

آج ہماری صورتحال یہ ہیکہ گھر میں کسی کا انتقال ہوجائے یا کوئی پریشانی ہو ہم اسلامی قوانین کو فراموش کردیتے ہیں۔ بالخصوص خوشی اور غم میں احکامِ شریعہ کی کھلی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
یہ کربلا ہی ہے جو ہمیں اپنے حقوق سے ملاتی ہے، اور ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہمیں اپنے علم و فہم ، شعور و فکر کو بلند و بیدار رکھنا ہے، ورنہ جہالت و گمراہی ہم پر اپنا غلبہ ڈالنے کی سرتوڑ کوشیشیں ضرور کریں گی… اگر آج بھی کوئی کلمہ گو اسلام کے نام پر عوام الناس میں اپنی جہالت و گمراہی سے اسلام دشمن صورتحال پیدا کرتا ہے تو وہ بھی آج کا یزید ہی ہے….
حسینیتؑ صبحِ قیامت تک مظلوموں کے لیے امید کا استعارہ ہے۔ یزیدیت، ظلم، جبر، استحصال اور جفا و زبردستی کا ایک قابلِ نفرت نشان۔
جوں جوں انسانیت بیدار ہوتی چلی جا رہی ہے، توں توں کربلا سے اسکا رشتہ گہرا ہوتا چلا جارہا ہے۔
جوش ملیح آبادی نے بالکل درست فرمایا تھا کہ

"انسان کو بیدار تو ہو لینےدو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ”

آج ہم محض اُن کی یاد میں محفل و مجلس منعقد کرنے کو ہی فوقت دیتے ہیں۔ اور اِس ذکر کی روحانیت کو بھول چکے ہیں کہ کیسے اپنے آپ میں درسِ کربلا کو اُتارا جائے۔ وہ ایثار و استقامت ہم میں کہیں نظر نہیں آتی جس کا درس ہمیں واقعہ کربلا سے ملتا ہے۔
ہم اپنے بہن، بھائیوں، دوستوں اور رشتےداروں تک کے لئے چھوٹی سے چھوٹی چیز کی بھی قُربانی نہیں دے سکتے،
اور ہم بات کرتے ہیں اُس ذاتِ ارحم کی جس نے دشمن پر بھی رحم کیا، اُسے مہلت دی اور بار بار منجانبِ اللّٰہ بُلایا۔
ہم تو وہ لوگ ہیں کہ اپنے پسندیدہ کھانے، لباس یا کوئی اور چیز جو ہمارے گھر میں آتی ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اُس شئے کا بہترین حصّہ ہمارے حصّے میں آئے۔ ہماری روز مرہ کی یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہمارے پاس موقع ہوتی ہیں اللّٰہ تعالٰی کی خاطر اس کے بندوں پر رحم کرنے کا، اپنی خواہش قربان کرنے کا، اور استقامت اختیار کرنے کا، مگر ہم اِن سب کو دین کی روشنی میں اپنی زندگی کا حصہ ہی نہیں سمجھتے۔
ہماری نظر میں دین اور دینداری عبادت گاہ تک ہی محدود ہے۔ جس کا ہمارے گھر، کاروبار یا روز مرّہ کے معاملات سے تعلق کم ہوتا جارہا ہے۔ اسی لئے آج یہ حال ہے کہ ہم جلسہ و جلوس پر تو لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن اپنے ہمسائے یا قریبی رشتے دار کی مدد کرنے میں ہزار روپے بھی خرچ کرنے سے پہلے کئی دفعہ سوچتے ہیں….جوکہ اولین ترجیح ہونا چاہئے۔
ہمیں تعلیمات اسلام کے فروغ کے لئے اللہ والوں کے دن منانے اور جلسہ و جلوس کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات ان کے دیے درس کو سمجھنے، اختیار کرنے اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔