مودی حکومت میں مسلمانوں پر عتاب: ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ

سہیل انجم

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ نے ہندوستان کے تعلق سے 19 فروری کو ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں مودی حکومت پر الزام عاید کیا گیا ہے کہ اس کی پالیسیاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو منظم انداز میں نشانہ بنانے اور ان کے خلاف امتیازی رویہ اپنانے والی ہیں۔ مسلمانوں کے تئیں بی جے پی کا تعصب پولیس محکموں اور عدالتوں تک میں داخل ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے قوم پرست گروپ مذہبی اقلیتوں کو ہدف بناتے، انھیں ہراساں کرتے اور انھیں دھمکیاں دیتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔

ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائرکٹر میناکشی گانگولی کا کہنا ہے کہ حکومت نہ صرف یہ کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام ہے بلکہ وہ متعصب اور اقلیت دشمن طاقتوں کی سیاسی سرپرستی بھی کرتی ہے۔ حکومتی اداروں میں بی جے پی نظریات کے داخل ہو جانے کی وجہ سے قوانین کی حفاظت بھی نہیں ہو پاتی۔ رپورٹ نے 23 فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فساد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے ایک سال ہو گیا لیکن ایک طرف پولیس فساد کی غیر جانبدارانہ جانچ کرنے اور بی جے پی کے ان رہنماؤں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہے جن پر فساد بھڑکانے کا الزام ہے اور دوسری طرف وہ انسانی حقوق کے ان کارکنوں کو پریشان کر رہی ہے جو فساد کی غیر جانبدارانہ جانچ کی بات کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس فساد میں 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 40 مسلمان تھے۔

دہلی کا فساد شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے بعد بھڑکا تھا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ بی جے پی لیڈروں اور ان کے حامیوں نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم چلائی اور ان کو ملک دشمن قرار دیا۔ اسی طرح اب جبکہ کسانوں کی جانب سے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف نومبر سے احتجاج ہو رہا ہے تو اب ایک اور اقلیت یعنی سکھوں کو ملک دشمن بتایا جا رہا ہے اور ان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق علیحدگی پسند خالصتانی جماعتوں سے ہے۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے تحریک چلانے والوں کے خلاف بیان دیا اور انھیں طفیلی اور مفت خور قرار دیا اور کہا کہ ایسے لوگ ہر اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں کوئی آندولن چل رہا ہو۔ ان کے اس بیان پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور غیر جانبدار صحافیوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔

رپورٹ میں 26 جنوری کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کے بعد پولیس نے صحافیوں اور دوسروں کے خلاف بے بنیاد الزامات کے تحت رپورٹ درج کی۔ مظاہرہ گاہوں پر انٹرنیٹ بند کر دیا گیا اور تقریباً بارہ سو ٹوئٹر اکاونٹس کو بند کرنے کا حکم دیا گیا۔ یاد رہے کہ حکومت کے حکم پر پہلے تو ٹوئٹر نے کچھ اکاونٹس بلاک کر دیئے مگر پھر انھیں بحال کر دیا تھا۔ اس کے بعد حکومت نے دوسرا حکم نامہ جاری کیا اور ٹوئٹر کو دوسری فہرست دی اور کہا اسے ہندوستان کے آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا ورنہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس کے بعد ٹوئٹر نے تقریباً 97 فیصد اکاونٹس بلاک کر دیئے۔ جن میں صحافیوں، اپوزیشن رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور دانشوروں کے اکاونٹس بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014 میں جب سے مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے متعدد ایسے قوانین وضع کیے گئے ہیں جن سے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو جواز حاصل ہو گیا ہے اور کٹر اور نام نہاد قوم پرستوں اور ہندو کارکنوں کو اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے ملک میں فرقہ وارانہ نفرت اور اقلیتوں میں خوف و دہشت میں اضافہ ہوا ہے اور انتظامیہ پر ان کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں متعدد فیصلوں کے حوالے دیئے گئے ہیں جن میں اترپردیش کا لو جہاد مخالف قانون بھی شامل ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ بی جے پی لیڈران اس قانون کا سہارا لے کر اس بے بنیاد نظریے کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ مسلم نوجوانوں نے ہندو لڑکیوں کے خلاف محبت کی آڑ میں ایک جہاد چھیڑ رکھا ہے۔ ان کا کام ہندو لڑکیوں کو دام محبت میں پھانسنا، ان سے شادی کرنا اور پھر ان کا مذہب تبدیل کروانا ہے۔ اس نظریے کے ماننے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کام کے لیے مسلم نوجوانوں کو خلیج سے پیسے ملتے ہیں اور ایک کیس پر دس لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں۔ حالانکہ لو جہاد کے الزام کا کوئی ثبوت آج تک پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔ تاہم جب سے لو جہاد مخالف قانون منظور ہوا ہے متعدد مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں گئو رکشکوں کے حوالے سے بھی حقائق پیش کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ بی جے پی سے وابستہ بہت سے ہندو گائے کے تحفظ کا قانون بنانے پر زور دیتے ہیں۔ کئی ریاستوں نے گائے کے تحفظ کا قانون بنایا ہے جس کا مقصد ہندو قوم پرستی کو بڑھاوا دینا اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اختیار کرنا ہے۔ ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جن میں گائے کے ذبیحہ کو قابل موخذہ جرم قرار دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ہونے والے تشدد میں گرفتار ملزموں کو ہی خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2015 کے بعد گائے کے تحفظ کے نام پر گئو رکشکوں کی جانب سے ہونے والے حملوں میں کم از کم پچاس مسلمان ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔ بی جے پی لیڈران حملہ آوروں کی حمایت کرتے ہیں اور پولیس کی جانب سے مظلوموں کے خلاف ہی کیس قائم کر دیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کی اس بین الاقوامی تنظیم نے تبلیغی جماعت پر کورونا وائرس پھیلانے کے الزام کا بھی ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ میڈیا نے اس کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی اور کورونا جہاد وغیرہ کے عنوان سے رپورٹیں پیش کی گئیں جس کی وجہ سے ملک میں اسلاموفوبیا کا ماحول پیدا ہوا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنا۔ خیال رہے کہ حکومت نے تبلیغی جماعت کے لوگوں کو بدنام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی تھی اور تبلیغی جماعت والوں اور ان کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔ پولیس کی جانب سے ہزاروں تبلیغی کارکنوں کے خلاف رپورٹ درج کرکے انھیں جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ لیکن عدالتوں میں کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہو سکا اور اب تقریباً تمام افراد بری اور رہا ہو چکے ہیں۔

اس طرح انسانی حقوق کی اس بین الاقوامی تنظیم کی رپورٹ ایک طرح سے مودی حکومت کی کھتونی ہے جس میں اس کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں کہ کس طرح 2014 کے بعد سے لے کر اب تک مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان پر حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کس طرح حکومتی اداروں میں بی جے پی کے نظریات سرایت کر گئے ہیں اور کس طرح اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اقلیتوں میں زبردست خوف اور ان کے خلاف نفرت انگیز ماحول پیدا ہو گیا ہے۔