’فوجی مشیر کو ڈر تھا ٹرمپ چین پر ایٹمی حملہ کر دیں گے‘

ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت صدارت ختم ہونے کے تقریباً آٹھ ماہ بعد کئی کتابیں سامنے آ چکی ہیں جن میں وائٹ ہاؤس میں سابق رپبلکن صدر کے چار ہنگامہ خیز سالوں کے اختتام کے بارے میں ڈرامائی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

اپنے دور صدارت کے اختتام کے قریب اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے لیے صدر ٹرمپ کا رویہ اس قدر تشویش ناک ہو گیا تھا کہ انہوں نے سوال کرنا شروع کر دیا کہ کیا 2020 کے انتخابات ہارنے کے بعد ٹرمپ کا ذہنی استحکام اس قدر انتشار کا شکار ہو جائے گا کہ وہ (آئندہ صدر کی حلف برداری سے پہلےعبوری مدت کے دوران) ملک کو جنگ میں دھکیل دیں گے۔

ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی ٹرمپ کے حامیوں کے کیپیٹل ہل پر حملے سے اس قدر ناراض ہوئیں کہ انہوں نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملے سے کہا کہ وہ صدر کو ’آمر‘ سمجھتی ہیں جنہیں بغاوت کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا جانا چاہیے۔

اور جنرل ملے خود اس بات سے بہت پریشان تھے کہ صدر ٹرمپ کی حرکتیں غیر ملکی حریف کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ امریکی فوج کے سربراہ کو بالآخر اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ بیک چینل کالز کا سلسلہ شروع پڑا تاکہ انہیں یقین دلایا جا سکے کہ امریکی حکومت مستحکم ہے اور صدر ٹرمپ بیجنگ پر حملہ نہیں کریں گے۔

یہ واقعات ان تفصیلات کا محض مختصر احوال ہیں جن کا انکشاف واشنگٹن پوسٹ کے مصنفین باب ووڈورڈ اور رابرٹ کوسٹا کی آنے والی کتاب ’پیرل‘ میں کیا گیا ہے۔ دی انڈپینڈنٹ نے اس کتاب کی ایک کاپی حاصل کی جس کی اشاعت 21 ستمبر کو ہو رہی ہے۔

یہاں اس کتاب کے کچھ انتہائی دھماکہ خیز انکشافات بیان کیے جا رہے ہیں

1۔ ٹرمپ کے فوجی مشیر کو ڈر تھا کہ وہ چین پر ایٹمی حملہ کر دیں گے

ٹرمپ کے حامیوں پر مشتمل ایک پرتشدد ہجوم کی جانب سے 6 جنوری کو کانگریس کو صدر جو بائیڈن کے الیکٹورل کالج میں فتح کی تصدیق سے روکنے کی کوشش میں کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے کے بعد ووڈورڈ اور کوسٹا نے لکھا کہ جنرل ملے پریشان ہو گئے کہ صدر ٹرمپ’ بدمعاشی پراتر‘ جائیں گے اور 20 جنوری کو عہدہ چھوڑنے سے پہلے کسی بھی وقت چین پر ایٹمی حملہ کر دیں گے۔

کیپیٹل ہل پر حملے کے دو دن بعد جنرل ملے نے نیشنل ملٹری کمانڈ سینٹر کے انچارج سینئر افسران کا ایک اجلاس بلایا تاکہ فوجی کارروائی شروع کرنے کے رسمی عمل کا جائزہ لیا جائے جس میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال بھی شامل تھا۔

جنرل ملے نے افسران کو بتایا کہ وہ کسی بھی ایسے احکامات کو نظر انداز کر دیں جن میں ان کو بائے پاس کیا گیا ہو۔جنرل ملے نے اجلاس میں موجود ہر ایک افیسر کی آنکھوں میں دیکھنے اور ان سے زبانی تصدیق کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے۔ آپ ضابطہ کار پر عمل کریں۔ اور میں اس ضابطہ کار کا حصہ ہوں۔‘

2۔ ٹرمپ کیپیٹل ہل پر حملہ کرانا چاہتے تھے

جنرل ملے نے ڈیموکریٹک ہاؤس کے ایک رکن کو بتایا کہ ان کے خیال میں ٹرمپ ‘چاہتے ہیں’ کہ ان کے حامی کیپیٹل ہل پر حملہ کریں۔جب ٹرمپ کے حامی کیپیٹل ہل پر حملہ آور ہوئے تو مشی گن سے تعلق رکھنے والی کانگریس کی رکن ایلیزا سلوٹکن نے جنرل ملے سے فون پر رابطہ کیا جہاں انہوں نے اور ان کے بہت سے ساتھیوں نے ہجوم سے بچنے کے لیے پناہ لی ہوئی تھی۔جب ایلیزا سلوٹکن نے جنرل ملے کو بتایا کہ نیشنل گارڈز کو کانگریس کی عمارت کی حفاظت کے لیے طلب کرنے کی ضرورت ہے تو جنرل ملے نے جواب دیا کہ مدد بھیجی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس پیش رفت سے صدر ٹرمپ کی بجائے نائب صدر مائیک پینس کو رپورٹ کریں گے۔

 

انہوں نے سلوٹکن کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ چاہتے تھے کہ (کیپیٹل ہل پر) یہ فساد برپا اور وہ اس سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔کتاب کے مطابق جنرل ملے نے کانگریس وومین کو بتایا: ’مجھے لگتا ہے کہ وہ (بلوہ) چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں انہیں یہ پسند ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ یہ افراتفری چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے حامی انتہائی حد سے گزر جائیں۔ مجھے نہیں معلوم۔‘

3۔ ٹرمپ کو بائیڈن کے لیے نوٹ چھوڑنے پر راضی کرنا پڑا

جب سے صدر رونالڈ ریگن نے جنوری 1989 میں آنے والے صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کے لیے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ چھوڑا تھا اس کے بعد تمام امریکی صدور کے لیے اپنے جانشین کے لیے ایک پیغام چھوڑنے کی روایت بن گئی جو امریکی نظام میں اقتدار کی پرامن منتقلی کو ذاتی بناتا ہے۔لیکن یہ روایت اس وقت تقریبا ختم ہونے والی تھی جب ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہونے میں ناکام ہو گئے تھے۔کتاب کے مطابق صدر ٹرمپ نے ہاؤس کے اقلیتی رہنما کیون میک کارتھی کی جانب سے ہفتوں تک جاری رہنے والی کاوشوں کے بعد بائیڈن کے لیے ایک ہاتھ سے لکھا ہوا پیغام لکھنے کا فیصلہ کیا۔جب میک کارتھی نے حلف برداری سے ایک شب پہلے رات 10 بجے صدر ٹرمپ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ نوٹ لکھ دیں گے لیکن انہوں نے بائیڈن کو کال کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

 

میک کارتھی نے ان سے کہا کہ نئے آنے والے اور سبکدوش ہونے والے صدور کا ’اقتدار کی منتقلی کو حقیقی بنانے‘ کے لیے بات کرنا ملک کے لیے اہم ہوگا۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی شکست واضح ہونے کے بعد اپنی انتظامیہ کے عہدیداروں کو بائیڈن کی منتقلی ٹیم کے ساتھ تعاون کرنے سے روک دیا تھا۔میک کارتھی نے ٹرمپ سے التجا کرتے ہوئے کہا: ’یہ میرے لیے کریں۔ آپ کو انہیں فون کرنا ہے۔ جو بائیڈن کو کال کریں۔‘اس کے جواب میں ٹرمپ نے کہا: ہرگز نہیں۔‘میک کارتھی نے مزید دو بار ان سے فون کرنے کی درخواست کی اور دونوں بار ٹرمپ نے انکار کر دیا۔

4۔ ٹرمپ لنزے گراہم پر برس پڑے

سینیٹر لنزے گراہم نے ایک بار سابق صدر کو ’ a race baiting, xenophobic religious bigot ‘ کہا تھا لیکن کون جانتا تھا کہ ایک دن ساؤتھ کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے رپبلکن رہنما کیپیٹل ہل میں ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک بن جائیں گے۔

ووڈورڈ اور کوسٹا کے مطابق ٹرمپ نے صدر منتخب ہونے کے بعد گراہم کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت جاری رکھی ہے اور انہیں ایک اتحادی کے طور پر شمار کیا لیکن ان کے اتحاد میں کچھ تلخ لمحات بھی گزرے ہیں۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک مڈسمر فون کال کے دوران گراہم نے مبینہ طور پر 2020 کے انتخابات کے بارے میں جھوٹ کو جاری رکھنے پر اپنے قریبی ساتھی ٹرمپ پر تنقید کی اور سخت جملے ادا کیے۔

کتاب کے مطابق سینیٹر گراہم نے ٹرمپ سے کہا کہ ’آپ کہتے رہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور آپ کو دھوکہ دیا گیا ہے اور آپ قریبی مارجن سے ہارے ہیں۔‘

جب گراہم نے ان سے کہا ’You f** your presidency up‘ تو دو بار مواخذے کا سامنا کرنے والے سابق صدر نے مبینہ طور پر ان کا فون کاٹ دیا۔

5۔ ٹرمپ نے کہا ان کے یہودی داماد امریکہ سے زیادہ اسرائیل کے وفادار ہیں

وائٹ ہاؤس کی ایک میٹنگ کے دوران صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر کہا کہ ان کی بیٹی ایوانکا کے شوہر اور وائٹ ہاؤس کے سینئر مشیر جیرڈ کشنر امریکہ سے زیادہ اسرائیل کے وفادار ہیں۔

ایک کٹر یہودی اور بڑے رئیل اسٹیٹ کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والے جیرڈ کشنر کو اپنے سسر کی انتظامیہ میں مشرق وسطیٰ کی پالیسی سنبھالنے کا کام سونپا گیا تھا۔

اور جب کہ ان کے خاندان کے یہودی ریاست سے گہرے ذاتی اور مالی تعلقات ہیں لیکن کشنر امریکی شہری ہیں اور اسرائیل کی دوہری شہریت نہیں رکھتے۔

ٹرمپ کا اینٹی ڈیفی میشن لیگ کا استعمال جو کہ ایک اینٹی سیمیٹک (یہودی مخالف) استعارے کی حیثیت رکھتا ہے، سابق صدر کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی جنہوں نے متعدد مواقعوں پر ڈیموکریٹس کو ووٹ دینے والے امریکی یہودیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیل سے بے وفائی کر رہے ہیں اور یہ کہ یہودی امریکی شہریوں کا ووٹ اس ملک کے مفادات پر مبنی ہونا چاہیے جو ان کا اپنا نہیں ہے۔

2020 کے صدراتی انتخابات ہارنے سے چند ماہ قبل ٹرمپ نے یہودی امریکی رہنماؤں کے ایک گروپ کو وائٹ ہاؤس کانفرنس کال میں یہودیوں کے نئے سال کے موقع پر بتایا کہ یہودیوں کو ان کے لیے ووٹ دینا چاہیے کیونکہ ڈیموکریٹس اسرائیل کے لیے برے ثابت ہوں گے۔ ہم آپ کے ملک سے محبت کرتے ہیں۔‘

جب انہوں نے ایک آرتھوڈوکس (کٹر) یہودی ہفتہ وار میگزین کے ایک رپورٹر کو غصے سے کہا کہ ’آپ نے اپنی زندگی میں مجھ سے زیادہ یہودی دوست شخص نہیں دیکھا ہو گا۔‘

لیکن ٹرمپ کے دورہ صدارت کے دوران یہودی مخالف سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا جن میں اگست 2017 ورجینیا کے شارلٹس ویل شہر میں ’یونائٹ دا رائٹ‘ ریلی جس کے دوران مارچ کرنے والوں نے ’یہودی ہماری جگہ نہیں لیں گے‘ جیسے نعرے لگائے اور اکتوبر 2018 میں پٹسبرگ کے ٹری آف لائف یہودی عبادت گاہ پر فائرنگ جیسے واقعات شامل ہیں۔