شہاب الدین کا جسد خاکی سیوان نہیں لے جانے دیاگیا : حکومت کی بدترین مسلم دشمنی ،اسامہ شہاب اکیلے سسٹم سے لڑتے رہے، تین دن بعد مخصوص افراد کی موجودگی میں تدفین، آر جے ڈی کی خاموشی پرغم وغصہ،پارٹی کارکنان کے استعفوں کا سلسلہ جاری

نئی دہلی۔۳؍ مئی: ✍ ( سمیع اللہ خان ) یکم‘ مئی ۲۰۲۱ کو سرزمين بہار کے عظیم اور ہردلعزیز عوامی رہنما شہاب الدین صاحب کی کرونا سے موت کی خبر آتی ہے، جبکہ وہ تہاڑ جیل میں تھے، لیکن جب ان کی کرونا رپورٹ پازیٹو آئی تو انہیں بجائے ایمس ہسپتال منتقل کرنے کے، علاج کے لیے دہلی کے خستہ حال اور بیکار دین دیال اپادھیائے ہسپتال میں ڈال دیا گیا تھا ۔

اس سے پہلے یہ سنگین خبر آئی کہ، شہاب الدین صاحب کےساتھ جیل میں ایک کرونا پازیٹو مریض کو رکھا گیا ہے، اس خبر سے سازش تیار کیے جانے کی بو آنے لگی تھی۔ علاج میں کھلے طورپر لاپرواہی کے الزامات متعلقین کی طرف سے ان کی موت سے پہلے ہی آن د ریکارڈ آچکے تھے ۔ لیکن اس کے باوجود کسی نے بھی توجہ نہیں دی اور پھر ۱ مئی کو خبر آتی ہےکہ ان کی وفات ہوچکی ہے ۔آفیشل ذرائع سے موت کی خبروں کے عام کرنے میں جس طرح کی فاش غلطیاں سامنے آئیں اس نے موت کو مزید مشتبہ کردیا ۔

ملکی سطح کا میڈیا ہاؤز ANI. جب پہلی مرتبہ ان کی موت کی خبر شائع کرتاہے تو اس کے کچھ ہی منٹوں بعد معذرت کرکے اسے ڈیلیٹ کردیتا ہے کہ ابھی افسران کی طرف سے خبر جاری نہیں ہوئی ہے اسلیے ہم اپنی نیوز واپس لیتے ہیں، ایسے ہی کئی ذرائع پہلے رات میں ان کی موت کی خبر شائع کرکے ماحول بناتے ہیں اور اسے واپس بھی لیتے ہیں، اور پھر صبح تک موت کی واقعی خبر شائع کی جاتی ہیکہ ہاں موت ہوچکی ہے، اس قرینے سے بالکل ظاہر ہوتاہے کہ موت کی پلاننگ چل رہی تھی۔

ایسے مشکوک انداز میں موت کی خبر آنے سے ہی لوگوں میں اضطراب پھیل چکا تھاکہ ہو نا ہو شہاب الدین صاحب کا قتل کرایا گیا ہے، پھر موت کے بعد شہاب الدین صاحب کی میت اور جنازے کا معاملہ آیا، جس میں لگاتار دو دن تک مرکزی حکومت، دہلی سرکار اور پولیس نے جس طرح کی مسلم دشمنی اور شہاب الدین کےساتھ سیاسی انتقام کا کھیل کھیلا، اس نے مسلمانوں کو سخت ترین غصے میں مبتلاء کردیا ہے۔یکم مئی کو ان کی وفات ہوجانے کےبعد سے ان کے جسد خاکی کو ان کے آبائی وطن سیوان اور خاندانی قبرستان میں دفنانے کے لیے ان کے بیٹے اسامہ شہاب نے کوششیں کی لیکن ان کی لاش کو آج بتاریخ ۳ مئی تک یونہی رکھا گیا اور دہلی سرکار اور پولیس پوری طرح ضد پر اڑی رہی کہ ان کا جنازہ ان کے وطن نہیں لے جانے دینگے، ان کے بیٹے اسامہ شہاب نے اپنی پوری طاقت جھونک دی انتھک جدوجہد کی لیکن ہندوستان کے مسلم دشمن سسٹم نے بالکل انسانیت سوزی کا مظاہرہ کیا اور لاش کو اس کا آخری حق نہیں ملنے دیا۔

۱ سے ۳ مئی کی صبح تک، اسامہ شہاب اکیلے سسٹم سے لڑتے رہے پھر ۳ مئی کو، ملکی سطح پر شور برپا ہوا، اور ملکی سطح کے کئی ایک لیڈران نے شہاب الدین صاحب کی مشکوک موت پر سوال اٹھانے کےساتھ ساتھ ان کے جسد خاکی کو آخری رسومات کا حق دلانے کا مطالبہ کیا، جن میں، امانت الله خان، عمران پرتاپ گڑھی، علی مہدی، ابو عاصم اعظمی، پپو یادو، اسدالدین اویسی، مفتی اسماعیل قاسمی، اکبر الدین اویسی، اخترالایمان، اور بہار کے سابق وزیراعلیٰ جیتن رام مانجھی جیسی شخصیات شامل ہیں ان سب نے ملکر دباؤ بنانے کی کوشش کی اور مسلسل ٹوئٹر پر نیشنل ٹرینڈنگ میں پہلے نمبر پر شہاب الدین صاحب کی میت سے انصاف کے مطالبے کا ٹرینڈ انڈیا میں پہلے نمبر پر چلتا رہا، ان سب کے باوجود دہلی سرکار اور پولیس نے شہاب الدین صاحب کے جسد خاکی کو وطن کی مٹی میں دفن ہونے نہیں دیا اور بالآخر ۳ مئی کو دیر شام آئی ٹی او دہلی کے قبرستان میں بادل نخواستہ سپردخاک کیا گیا ۔ اس دوران آج دین دیال ہسپتال میں شہاب الدین صاحب کے چاہنے والوں اور پولیس انتظامیہ کےدرمیان کافی جھڑپ اور گرماگرمی کا منظر بھی دیکھنے کو ملا، شہاب صاحب کے چاہنے والے پولیس والوں کو.

ان کےمنہ پر کھلے عام قاتل بتاتے ہوئے بھی پائے گئے ۔ ان سب کے درمیان، آر جے ڈی کےخلاف بھی بہار کے مسلمانوں میں سخت غم و غصہ دیکھنے کو مل رہا ہے، کیونکہ شہاب الدین صاحب نے پوری زندگی آر جے ڈی پارٹی اور لالو یادو پریوار کے لیے اپنا خون پسینہ پیش کیا، پارٹی کو بہار میں ایک شان دلائی لیکن پارٹی نے انہیں آخری وقت میں اکیلا چھوڑ دیا، نا انہیں بہتر علاج دلانے کی کوشش کی ناہی موت کےبعد شہاب الدین کے جنازے کو اعزاز دلانے کی کوشش میں کہیں بھی نظر آئے، دن بھر میں جب آر جے ڈی کےخلاف ریاست بہار میں سخت غصہ بڑھتا نظر آیا تو شام میں تیجسوی یادو نے بیان جاری کرکے لیپاپوتی کی کوشش کی کہ وہ اور ان کی پارٹی شہاب صاحب کی بھرپور مدد کررہےہیں، لیکن ان کے اس وضاحتی بیان کو بہار کے مسلمان تسلیم کرنے تیار نہیں ہیں کیونکہ، آر جے ڈی لالو یادو خاندان سے کوئی ایک بھی فرد س پورے دورانیے میں ناہی شہاب صاحب کے گھر سیوان پہنچا ناہی دہلی میں ان کے آخری رسومات میں کسی نے بھی شرکت کی، یہ واضح سچائی چونکہ لوگ خود دیکھ رہےہیں اسلیے تیجسوی یادو کی وضاحت کے باوجود مسلمانوں کے غصے میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی بلکہ خبر لکھے جانے تک آر جے ڈی کے تین مسلم عہدیداران نے پارٹی سے استعفیٰ تک دے دیا ہے،

جن میں نوادہ ضلع راجد اقلیتی سیل کے صدر قمرل باری، راجد کے تکنیکی ڈیپارٹمنٹ کے ریاستی سیکریٹری سہراب قریشی اور آر جے ڈی کے نوجوان لیڈر ایڈوکیٹ صداقت علی بھی شامل ہیں، انہوں نے آر جے ڈی کے لیٹرپیڈ پر اپنے اپنے استعفیٰ نامے پارٹی صدر لالو یادو کو بھیج دیے ہیں جن میں کہا گیا ہیکہ، جس آدمی نے پارٹی کو زندگی دی اگر پارٹی ایسے شخص کےساتھ بھی کھڑی نہیں ہوسکتی اور اس کے جسد خاکی سے سوتیلا سلوک کرتی ہے تو ایسی پارٹی میں رہنا بے سود ہے ۔ شہاب الدین مسلمانان بہار کے لیے ایک ایسا سایہ تھے کہ ان کی مشکوک حالات میں موت نے سبھی کو بے چین کردیا ہے، گرچہ ان کی جبراً تدفین ان کے آبائی وطن سے دور کرادی گئی ہے، لیکن ان کی پراسرار موت پر ہنگامے اور جانچ اور انصاف کے مطالبات میں شدت بڑھتی جارہی ہے۔ادھر اپنے ہر دل عزیز لیڈر کے ساتھ سوتیلے رویہ پر باضمیر پارٹی کارکنان میں سخت غم وغصہ ہے ۔ نوادہ آرجے ڈی سمیت دیگر جگہوں سے لیڈران اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔
اللہ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے، رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ