ایٹم بم: امریکہ، روس، برطانیہ اور چین میں جوہری ہتھیاروں کا بٹن کس کے پاس ہوتا ہے؟

24 فروری 2022، روس میں صبح کا وقت ہے۔روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین کے مشرقی حصے میں خصوصی فوجی آپریشن کا اعلان کیا اور سرحد پر پہلے سے تعینات روسی افواج نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔حجم کے لحاظ سے روس دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور یوکرین 45 واں بڑا ملک ہے۔روس چاہتا ہے کہ نہ تو یوکرین کو نیٹو کا رکن بنایا جائے اور نہ ہی مشرقی ممالک میں نیٹو افواج کی تعیناتی کی جائے۔ لیکن یوکرین اس کا رکن بننے کے لیے نیٹو کے ساتھ تعاون بڑھانا چاہتا ہے۔اقوام متحدہ اور مغربی ممالک نے روس کی شدید مذمت کی اور اس پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ نیٹو نے روس کے ارد گرد اپنے رکن ممالک میں فوجی موجودگی میں اضافہ کیا اور کہا کہ یوکرین کو اپنے دفاع کا پورا حق ہے۔اس کے بعد 27 فروری کو روسی صدر نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو ’خصوصی الرٹ‘ پر رکھنے کا حکم دیا۔دنیا میں جوہری ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ روس کے پاس ہی ہے۔ ایسے میں ماہرین کا خیال ہے کہ روس کے اس اعلان سے عالمی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ تاہم روس کے علاوہ امریکہ، چین اور برطانیہ سمیت کئی دوسرے ممالک کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہیں۔جوہری ہتھیاروں کو تباہی کے ہتھیار کہا جاتا ہے۔ ایسے میں روس کے اعلان سے کشیدگی میں اضافہ فطری ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے پروٹوکول کیا ہیں؟ ان تباہ کن ہتھیاروں کے ذخیرے کی چابیاں کس کے پاس ہیں؟ روس، امریکہ، چین اور برطانیہ میں ایٹمی ہتھیاروں کا بٹن کون دبا سکتا ہے؟سابق امریکی میزائل لانچ آفسر بروس بلیئر، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، نے 70 کی دہائی میں امریکہ کے انٹیلی جنس جوہری میزائل اڈوں پر کام کیا۔بروس بلیئر نے کہا تھا ’ہمیں منٹ مین کہا جاتا تھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکم ملنے پر ہم ایک منٹ میں ایٹمی میزائل داغ سکتے ہیں‘۔بروس اور ان کے ساتھی ہر وقت کمپیوٹر کی اس سکرین پر نظر رکھتے تھے جس پر کسی بھی وقت میزائل داغنے کا حکم آ سکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’امریکی نظام میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا حکم صرف ایک شخص دے سکتا ہے اور وہ ہے ملک کا صدر‘۔

نیوکلیئر فٹ بال: امریکہ میں میزائل داغنے کا عمل:’اسی لیے امریکی صدر کے ساتھ ہر وقت مخصوص لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ایک بریف کیس ہوتا ہے جسے نیوکلیئر فٹ بال کہتے ہیں‘۔یہ سیاہ رنگ کا چمڑے کا بریف کیس دیکھنے میں بہت ہی عام سا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے اندر خاص آلات ہیں جن کے ذریعے صدر کسی بھی وقت اپنے سینیئر مشیروں اور کچھ دوسرے انتہائی اہم لوگوں سے بات کر سکتے ہیں۔بروس بلیئر کا کہنا تھا، ’اس بریف کیس میں ایک کارٹون کتاب کی طرح کا صفحہ بھی ہے، جس میں گرافکس کے ذریعے جنگی منصوبے، جوہری میزائل اور ان کے اہداف کی تفصیلات درج ہیں۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر حملہ ہوا تو کتنے لوگ مارے جانے کا امکان ہے ۔ صدر کو ان باتوں کو پلک جھپکتے ہی سمجھنا ہوتا ہے۔‘فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 2022 کے آغاز تک دنیا کے نو ممالک کے پاس تقریباً 12 ہزار 700 جوہری میزائل موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر روس کے پاس ہیں اور امریکہ اس معاملے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے پاس ایسے پانچ ہزار سے زیادہ میزائل ہیں۔رپورٹ کے مطابق روس کے پاس 5977، امریکہ کے پاس 5428، چین کے پاس 350، فرانس کے پاس 290، برطانیہ کے پاس 225، پاکستان کے پاس 165، انڈیا کے پاس 160، اسرائیل کے پاس 90 اور شمالی کوریا کے پاس 20 ایٹمی میزائل ہیں۔امریکہ میں میزائل داغنے کا عمل پینٹاگون وار روم سے شروع ہوتا ہے لیکن اس کے لیے صدارتی حکم کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن صدر کا حکم اسی وقت مانا جاتا ہے جب وہ میزائل لانچ آفسر کو اپنی خاص شناخت بتاتے ہیں اور یہ شناخت بسکٹ نما پلاسٹک کارڈ میں ہوتی ہے۔امریکی صدر کو یہ کارڈ ہمیشہ اپنے پاس رکھنا ہوتا ہے۔ یہ وہ کارڈ ہے جس کی وجہ سے امریکی صدر کو دنیا کا طاقتور ترین شخص کہا جاتا ہے۔ صدر سے منظوری ملنے کے بعد چند منٹوں میں ایٹمی میزائل لانچ کیا جا سکتا ہے۔بروس بلیئر نے بتایا کہ صدر کا حکم ملنے کے بعد منٹ مین یعنی زمین پر تعینات ٹیم میزائل سے حملہ کرنے والے یا آبدوز میں نصب میزائل لانچ کوڈ کے ساتھ کھولے جاتے ہیں اور حملے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔بروس بلیئر کے مطابق کسی بھی وقت جوہری میزائل لانچ کرنے کے لیے دو افراد کی ضرورت ہوتی ہے، جو اپنے اپنے کوڈ بتاتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ دو لوگ میزائل لانچ کرنے کی چابی ہوتے ہیں۔

’ایسا لگتا تھا ایٹمی جنگ چھڑ جائے گی‘:انھوں نے بتایا، ’میرے پورے کرئیر میں ایک وقت ایسا آیا تھا جب ایسا لگتا تھا کہ ایٹمی جنگ چھڑ جائے گی۔ تب میری عمر کم تھی اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ اس وقت ہمیں الرٹ ملا کہ جوہری جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘بروس اور ان کے ساتھی ٹموتھی میزائل کا لانچ کوڈ یعنی چابی لے کر کرسی پر بیٹھ گئے۔ وہ میزائل لانچ کے حتمی حکم نامے کا انتظار کر رہے تھے لیکن یہ اچھی بات تھی کہ وہ حکم کبھی نہیں آیا۔یہ 1973 کی بات ہے جب عرب ممالک اور اسرائیل میدان جنگ میں آمنے سامنے تھے۔ اچھی بات یہ تھی کہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال نہیں ہوا۔ اس سے قبل 1960 کی دہائی میں کیوبا کے میزائل بحران کے دوران امریکہ اور سوویت یونین ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔لیکن کیا امریکی صدر بغیر کسی دھمکی یا اشتعال کے اپنی طرف سے ایٹمی میزائل داغنے کا حکم دے سکتے ہیں؟بروس بلیئر نے کہا کہ ’ایسی صورت حال میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے سربراہ اس حکم کو ماننے سے انکار کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا ہونے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ صدر کے ماتحت کام کرنے والے ایسے لوگوں کو حکم کی تعمیل کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس لیے اگر کوئی صدر اپنی طرف سے ایٹمی میزائل لانچ کرنے کا حکم دیتا ہے تو اسے روکنا بہت مشکل ہے۔‘

جب روس کے صدر کو جوہری بریف کیس کھولنا پڑا:ایگور سیزگن اسلحہ کے ماہر ہیں۔ وہ روس کے رہنے والے ہیں اور کبھی وہاں کی حکومت کے لیے کام کرتے تھے۔سنہ 1999 میں روس نے ان پر لندن کی ایک کمپنی کو عسکری انٹیلی جنس فراہم کرنے کا الزام لگایا۔ ایگور نے بے گناہی کا دعویٰ کیا لیکن اُنھیں 11 سال قید میں رکھا گیا۔ اُنھیں 2010 میں جیل سے رہائی ملی جس کے بعد اُنھوں نے لندن میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ برطانوی دفاعی تھنک ٹینک میں سینیئر فیلو ہیں۔ایگور بتاتے ہیں، ’امریکہ میں جوہری فٹ بال کی طرح، روس کے صدر کے پاس بھی ایک جوہری بریف کیس ہوتا ہے جس میں جوہری میزائلوں کے کوڈ ہوتے ہیں۔ یہ بریف کیس ہمیشہ صدر کے آس پاس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ سوتے ہیں تو یہ ان کے 10-20 میٹر کے دائرے میں رہتا ہے۔ روس پر حملے کی خبر آنے پر بریف کیس میں الارم بجتا ہے اور فلیش لائٹ روشن ہو جاتی ہے جس سے صدر فوری طور پر بریف کیس کے قریب پہنچ کر وزیر اعظم اور وزیر دفاع سے رابطہ کر سکتے ہیں۔‘ایسے دو بریف کیس روسی وزیر اعظم اور روسی وزیر دفاع کے پاس ہوتے ہیں لیکن ایٹمی حملے کا حکم صرف صدر ہی دے سکتے ہیں۔ایگور بتاتے ہیں کہ ’وہ سپریم کمانڈر ہیں اور یہ بریف کیس ان کی ذمہ داری ہے۔ ہنگامی صورت حال میں وہ اس بریف کیس کے ذریعے فوج کے کمانڈرز اور وزیر اعظم اور وزیر دفاع سے بات کر سکتے ہیں، اُنھیں کسی ٹیلی فون کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘ایسا موقع صرف ایک بار آیا جب روس کے صدر کو یہ بریف کیس کھول کر فعال کرنا پڑا۔ایگور بتاتے ہیں ’25 جنوری 1995 کو اس بریف کیس کا الارم بجا تھا ،اس کی روشنی چمکنے لگی۔ دوسری وارننگ لائٹ صدر کی میز پر جل رہی تھی۔ اس وقت بورس یلسن صدر تھے۔‘روسی ریڈارز نے سرحد کے قریب بحیرہ بیرنٹس کے اوپر ایک میزائل دیکھا تھا جو تیزی سے روس کی طرف بڑھ رہا تھا اور وقت کم تھا۔ایگور بتاتے ہیں ’بورس یلسن نے اپنا بریف کیس آن کر لیا تھا۔ وہ وزیر اعظم اور وزیر دفاع سے مشورہ کر رہے تھے کہ اب کیا کرنا ہے اور اس کے لیے ان کے پاس صرف پانچ سے نو منٹ کا وقت تھا۔‘

روسی آبدوزوں کو تیار رہنے کا حکم دیا گیا:تاہم بعد میں پتہ چلا کہ یہ وارننگ الارم غلط تھا۔ یہ دراصل ناروے کا ایک راکٹ تھا جسے سائنسی مشن پر چھوڑا گیا تھا۔ اس راکٹ کو روس کی طرف آنے والا میزائل سمجھ کر حملے کا الارم بجا دیا گیا۔اگر بورس یلسن اس وقت جوہری میزائل داغنے کا حکم دیتے تو جنگ کی تاریخ میں کئی نئے صفحات جُڑ چکے ہوتے۔امریکہ کی طرح روسی نظام میں بھی یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ اگر صدر ایٹمی حملے کا حکم دیں گے تو حملہ ہو گا۔ایگور کہتے ہیں ’روس میں اکثر یہ جاننے کے لیے مشقیں کی جاتی ہیں کہ میزائل لانچ کرنے کی تیاریاں کتنی ٹھوس ہیں۔ کبھی کبھی میزائل پر نظر رکھنے والوں کو غلط لانچ کوڈ دے کر حملے کی تیاری کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ آیا وہ حقیقی جنگ کی صورت میں جوہری حملہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں یا نہیں۔‘

برطانیہ: لاسٹ ریزورٹ لیٹر:پروفیسر پیٹر ہینیسی کتاب ’دی سائلنٹ ڈیپ‘ کے شریک مصنف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانوی فوج کے پاس ٹرائیڈنٹ نیوکلیئر میزائلوں سے لیس چار بہترین آبدوزیں ہیں جن میں سے ایک ہمیشہ بحر اوقیانوس میں تعینات رہتی ہے۔ یہ صرف ایک اشارے پر ایٹمی حملہ کر سکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’شمالی بحر اوقیانوس کی خاموش گہرائیوں میں ہر وقت کہیں نہ کہیں ایک آبدوز رہتی ہے جس کی موجودگی کا کسی کو علم نہیں ہوتا اور کوئی اس بارے میں معلوم بھی نہیں کر سکتا۔‘پروفیسر پیٹر کا کہنا ہے کہ ’برطانوی نظام میں جوہری میزائلوں کو لانچ کرنے کا حکم صرف وزیر اعظم ہی دے سکتے ہیں۔ ان کے ایک حکم پر رائل نیوی وینگارڈ کلاس آبدوز سے جوہری حملہ کر سکتی ہے۔‘اس کے لیے برطانوی وزیر اعظم نیوی کے دو افسران کو میزائل لانچ کرنے کا خصوصی کوڈ بتاتے ہیں۔ ان دونوں افسران کے پاس بھی خصوصی کوڈ ہیں، وہ اپنے کوڈ بھی بتاتے ہیں۔کوڈ دینے کا یہ عمل لندن کے باہر واقع ایک بنکر میں کیا جاتا ہے۔ یہاں سے سمندر میں تعینات آبدوز کو ایٹمی میزائل داغنے کا حکم جاری کیا جا سکتا ہے۔پروفیسر پیٹر ہینیسی بتاتے ہیں ’ایک آبدوز میں بھی دو افسران یہ پیغامات بغیر وائرلیس وصول کرتے ہیں اور پھر اپنے متعلقہ کوڈز کو ملا کر میزائل لانچ کرنے کی تیاری کرتے ہیں۔‘

ایٹم بم کس طرح کے ہوتے ہیں؟:پہلا فِشن بم جس میں نیوکلیئر فِشن استعمال ہوتا ہے۔ اس میں جب نیوٹران ایک ایٹم سے ٹکراتا ہے تو یہ ایٹم کو دو ٹکڑے کر دیتا ہے۔ اس عمل سے بڑی مقدار میں توانائی اور روشنی پیدا ہوتی ہے۔دوسرا تھرمونیوکلیئر یا ہائیڈروجن بم جس میں نیوکلیئر فیوژن استعمال ہوتا ہے۔ اس میں انتہائی زیادہ درجہ حرارت پر ہائیڈروجن کے آئسوٹوپس ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ہیلیئم بناتے ہیں اور اس عمل سے توانائی اور روشنی پیدا ہوتی ہے۔پروفیسر پیٹر ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنھیں آبدوز سے میزائل ٹیسٹ فائر دیکھنے کا موقع ملا۔وہ کہتے ہیں ’کپتان نے کچھ سفید دھواں سا دکھایا اور پھر گیس کا ایک گولہ تیزی سے سمندر میں نظر آیا۔ چند سیکنڈوں میں ایک بہت زور دار دھماکہ ہوا۔ سمندر کے پانی پر گیس کا ایک بہت بڑا بادل نمودار ہوا۔ یہ سب بہت ہی ڈرامائی انداز میں ہوا۔‘ایٹمی میزائل لانچ کرنے کا مطلب دشمن کی مکمل تباہی ہے، اس لیے یہ کام بڑی ذمہ داری سے کیا جاتا ہے۔پروفیسر پیٹر ہینیسی کہتے ہیں ’برطانیہ میں جب کوئی وزیرِ اعظم بنتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں سے ایٹمی میزائلوں والی چار آبدوزوں کو خط لکھتا ہے۔ اس خط کو ’لیٹر آف لاسٹ ریزورٹ‘ یعنی آخری چارے کا خط کہا جاتا ہے۔ یہ خط آبدوز کی تجوری میں رکھا جاتا ہے۔ پروٹوکول کے مطابق اسے صرف اس وقت پڑھنا ہے جب برطانیہ کسی حملے میں مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہو۔ابھی تک کوئی نہیں جانتا کہ لیٹر آف لاسٹ ریزورٹ میں آبدوز کے کمانڈر کے لیے کیا حکم لکھا گیا ہے۔جب برطانیہ میں وزیر اعظم تبدیل ہوتا ہے تو یہ خط بغیر کھولے اور پڑھے بغیر تلف کر دیا جاتا ہے۔ اور ہر نیا وزیراعظم آبدوز کے لیے کمانڈر کو ایک نیا خط لکھتا ہے۔ یہ سلسلہ برسوں سے برطانیہ میں جاری ہے۔
چین کی گہری سرنگیں:ٹونگ جاؤ بیجنگ میں کارنیگی چنہوا سینٹر فار گلوبل پالیسی میں فیلو ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب سے سنگین مسئلہ ہے جس کا انسانوں کو سامنا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی جنگ کا براہ راست تعلق انسانوں کے وجود سے ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’تاریخ میں ایسے کئی مواقع آئے جب ہم جوہری جنگ کے بہت قریب پہنچ گئے اور پوری انسانی نسل کو خطرہ لاحق ہو گیا۔‘چین دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں لیکن اس کی پالیسی ہے کہ پہلے حملہ نہ کیا جائے۔ٹونگ جاؤ کا خیال ہے کہ اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ چین کے پاس ابھی تک یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اپنے خلاف ممکنہ جوہری حملے کا پہلے سے پتہ لگا سکے۔ان کا کہنا ہے کہ ’چین انتظار کرے گا اور پہلے اس بات کی تصدیق کرے گا کہ آیا واقعی ایٹمی حملہ ہوا ہے یا نہیں۔ تصدیق ہونے پر وہ صورتحال کا جائزہ لے گا اور یہ سمجھنے کی کوشش کرے گا کہ حملہ کس قسم کا ہے اور کتنا بڑا ہے اور جوابی کارروائی کے کیا آپشن ہیں۔‘لیکن اگر چین کے تمام بڑے لیڈر اور فوجی کمانڈر کسی حملے میں مارے جائیں یا دشمن کے حملے میں چین کا ایٹمی میزائل تباہ ہو جائے تو ایسی صورت حال میں چین کے پاس کیا آپشن ہو گا؟ٹونگ کے مطابق، ’چین نے اپنے لیڈروں اور اپنے جوہری میزائلوں کو حملے میں تباہ ہونے سے بچانے کے لیے پہلے ہی کافی تیاریاں کر رکھی ہیں۔‘چین نے اس کے لیے گہری سرنگوں کا جال بنا رکھا ہے۔ کچھ سرنگیں تو پہاڑی علاقوں میں زمین کے نیچے سو سو میٹر کی گہرائی میں بنی ہوئی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب زمین پر جنگ کا دھواں اٹھ رہا ہو گا تو زمین کے نیچے گہری سرنگوں میں موجود رہنما اہم فیصلے کر رہے ہوں گے۔ لیکن چین میں ایٹمی حملے کا حتمی فیصلہ کس کے ہاتھ میں ہے؟

ٹونگ جاؤ بتاتے ہیں کہ ’یہ سب خفیہ باتیں ہیں لیکن لوگوں کا خیال ہے کہ چین میں فوج کیا کرے گی، اس کا فیصلہ کمیونسٹ پارٹی کی پولٹ بیورو کی قائمہ کمیٹی کرتی ہے۔ حتمی فیصلہ کمیٹی کا ہوگا یا صدر کا ہو گا یہ کوئی نہیں جانتا۔‘چین کے معاملے میں ایک اور بات قابل غور ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ خود پر جوہری حملے کے بعد کئی ہفتوں یا مہینوں تک خاموش رہے اور پھر جوابی کارروائی کرے کیونکہ چین شروع ہی سے پہلے حملہ کرنے کی مغربی پالیسی کا مخالف رہا ہے۔ٹونگ جاؤ کا کہنا ہے کہ ’جب چین نے جوہری ہتھیاروں کی طاقت حاصل کر لی تو اس کے رہنما ماؤزے تنگ نے فیصلہ کیا کہ چین اس معاملے میں ایک ذمہ دار ملک بنے گا۔ اس کے رہنما اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ اس وقت ہیروشیما اور ناگاساکی میں کیا ہوا تھا۔‘لیکن یہ تب کی بات تھی، چین کا رویہ اب بدل رہا ہے۔ مغربی ممالک کی سوچ بھی اس پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ 2015 میں چین نے زمین پر جوہری اور روایتی میزائلوں پر کام کرنے والی شاخ کو مستقل طور پر فوج میں شامل کیا اور اسے پیپلز لبریشن آرمی راکٹ فورس کا نام دیا۔بہت سے دوسرے ممالک کی طرح یہ بھی ہائپرسونک ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہے اور اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو بڑھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ٹونگ جاؤ کا کہنا ہے کہ ’کچھ ماہرین چاہتے ہیں کہ امریکہ یا روس کے صدور کی طرح چین کے صدر کو بھی جوہری حملے کا حکم دینے کا اختیار ہونا چاہیے، تاکہ وہ کسی حملے کا امکان دیکھ کر پہلے ہی حملے کا حکم دے سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین ان دنوں طاقتور ریڈار تیار کر رہا ہے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بنا رہا ہے۔‘ماہرین کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں چین جوہری حملے کے حوالے سے پہلے استعمال نہ کرنے کی اپنی پالیسی میں بھی تبدیلی کر سکتا ہے۔

جب آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گے تو ہو سکتا ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں کچھ لوگ کسی خاص کمپیوٹر کی سکرین کو گھور رہے ہوں، کچھ بنکر میں بیٹھے اپنے لیڈر کے حکم کا انتظار کر رہے ہوں اور ہو سکتا ہے کسی آبدوز کا کمانڈر اپنے لیڈر کے حکم کا انتظار کر رہا ہو۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا کبھی لیٹر آف لاسٹ ریزورٹ کو پڑھنے کا موقع ملے گا۔
امریکہ، روس، برطانیہ اور چین کی ان مثالوں سے واضح ہے کہ ایٹمی حملہ کرنے کے لیے آپ کے پاس ایسا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ہونا ضروری ہے، جس کی مدد سے کسی بھی جگہ سے، کسی بھی وقت حملے کا حکم جاری کیا جا سکے۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی رہنما اس طرح کے حملے کے بارے میں نہیں سوچے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا مطلب بڑی تباہی ہو گا۔ہیروشیما، ناگاساکی پر ایٹمی حملے کے بعد یہ دنیا کئی بار ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچی لیکن آج تک کسی لیڈر نے ایٹمی حملے کا بٹن نہیں دبایا۔لیکن روسی صدر کے ایٹمی ہتھیاروں کو ہائی الرٹ پر رکھنے کے حکم نے دنیا کو ایک بار پھر ایٹمی جنگ کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔اس دہلیز سے آگے صرف تباہی ہی تباہی ہے اور ایک لیڈر کا ایٹمی بٹن دبانے کا فیصلہ پوری دنیا کو برباد کر سکتا ہے۔
پروڈیوسر- مانسی دشا (بہ شکریہ بی بی سی اردو)

Leave a comment