احتجاجیوں کو جاب اور پاسپورٹ نہیں ملیں گے؟

اتراکھنڈ اور بہار میں احتجاج عوام کو مہنگا پڑے گا ۔ احتجاجیوں کو مخالف قوم یا مخالف سماج قرار دینے کا اندیشہ

دہرہ دون ؍ پٹنہ : سوشل میڈیا پر کچھ بھی مخالفانہ تبصرہ اب مخالف قوم یا غداری سمجھا جاسکتا ہے جس کے نتیجہ میں اتراکھنڈ میں پاسپورٹس اور آرمس لائسنس کا حصول خارج از امکان ہوسکتا ہے۔ دریں اثناء بہار میں بھی اسی طرح کے اقدام کا اندیشہ ہے، جہاں راستہ روکو احتجاج پر لوگوں کو بینک لون حاصل کرنے، سرکاری نوکریوں کے حصول اور کئی دیگر خدمات سے دور کیا جاسکتا ہے۔ ان احکام کی متعلقہ ریاستوں کے پولیس سربراہوں کی جانب سے اجرائی پر تنازعہ چھڑ گیا۔ دونوں ریاستوں کے ڈی جی پیز نے کہا کہ قواعد کے بنیادی ڈھانچہ میں کوئی نہیں بات نہیں ہے اور وہ کوئی نئی باتوں پر عمل نہیں کررہے ہیں۔ اس ہفتہ کے اوائل دہرہ دون میں پولیس آفیسرس کانفرنس کے اختتام پر اتراکھنڈ ڈی جی پی اشوک کمار نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پولیس سوشل میڈیا کے ڈاٹا بیس پر کڑی نظر رکھے گی اور جو کچھ مخالف قوم یا مخالف سماج پایا جائے، پولیس اس کی ضروری تصدیق کے بعد کارروائی شروع کرے گی۔ کارروائی کے تحت پاسپورٹ یا آرمس لائسنس کیلئے درخواست پر خاطی کو دستاویز کے حصول سے روکا جاسکتا ہے۔ یہ فیصلہ دو روزہ کانفرنس میں کیا گیا۔ اتراکھنڈ پولیس کے سینئر عہدیدار نے بتایا کہ اس فیصلہ کا صرف ان ہی افراد پر اثر پڑے گا جو مخالف قوم مواد پوسٹ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں ملک کے اقتداراعلیٰ اور ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور ایسی حرکت لا اینڈ آرڈر کیلئے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ اتراکھنڈ کی جانب سے اس قسم کے فیصلہ کا اعلان کرنے سے ایک روز قبل بہار میں بھی احتجاجوں کے سدباب کیلئے اسی طرح کا فیصلہ کیا گیا۔ بہار ڈی جی پی ایس کے سنگھل کے جاری کردہ احکام میں 9 سرویسیس کی صراحت کی گئی جس کیلئے پولیس ویریفکیشن ضروری ہوگا۔ ان سرویسیس میں گورنمنٹ جوابس، سرکاری پراجکٹوں کیلئے ورک کنٹراکٹس، آرمس لائسنس، پاسپورٹس، کیرکٹر سرٹیفکیٹ، پٹرول اور گیس ایجنسیوں کیلئے لائسنس، بینک لون، سرکاری امدادی تنظیموں کیلئے کنٹراکٹ پر کام اور کوئی بھی دیگر کام کو شامل کیا گیا ہے جس کیلئے پولیس ضروری تصدیق کو ناگزیر سمجھے۔ بہار میں اس فیصلے کے تین روز بعد جب تنازعہ میں شدت پیدا ہوئی تب دونوں ریاستوں کے پولیس محکمہ جات نے وضاحت کی کہ وہ پہلے سے موجود قواعد میں کوئی تبدیلی نہیں کررہے ہیں بلکہ ان قواعد کو زیادہ سختی سے لاگو کررہے ہیں۔ کہیں بھی کسی کے حق احتجاج پر ضرب نہیں لگائی گئی ہے۔

Leave a comment