اترپردیش میں کورونا کاقہر:یوگی حکومت کی نااہلی چھپانے کے لیے شمشان گھاٹ کو ٹین شیڈ سے ڈھکا گیا

اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں انتظامیہ نے ایک شمشان گھاٹ کے اطراف لوہے کی اونچی اونچی چادریں کھڑی کردی ہیں تاکہ جلتی چِتاؤں کے ڈھیر پر لوگوں کی نگاہ نہ پڑ سکے۔ جمعرات کے روزسے وائرل ہورہی ایک ویڈیو میں لکھنؤ کے بھینسا کنڈ شمشان گھاٹ پر درجنوں لاشوں کو ایک ساتھ جلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ لوگوں کا الزام ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کورونا پر قابو پانے میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے اسی طرح لوہے کی اونچی اونچی چادریں نصب کررہی ہے جیسی وزیر اعظم مودی نے گزشتہ برس احمد آباد کی ایک خستہ حال بستی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قافلے کی نظروں سے چھپانے کے لیے دیواریں کھڑی کی تھیں۔

عام لوگوں کے ساتھ ہی سوشل میڈیا صارفین اترپردیش حکومت کے اس اقدام پر سخت ناراضگی ظاہر کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ko ایک تو اپنے عزیزواقارب کی موت سے وہ پہلے ہی ٹوٹ جاتے ہیں ،اس پر اب ان کی آخری رسومات کے وقت موجود رہنے سے بھی محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دیواریں کھڑی کردینے کی وجہ سے لوگ اب دور سے بھی اپنے پیاروں کی جلتی ہوئی چِتا کو دیکھ نہیں سکیں گے۔ لکھنؤ انتظامیہ نے دراصل یہ قدم جمعرات کے روز وائرل ہوجانے والی اس ویڈیو کے بعد اٹھایا ہے جس میں بھینسا کنڈ نامی شمشان گھاٹ پر ایک ساتھ درجنوں لاشوں کو جلتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد یوگی حکومت کی کافی بدنامی ہو رہی تھی۔

ریاست کی بی جے پی حکومت پر کورونا سے مقابلہ کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہ کرنے کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت کورونا سے مرنے والوں کی اصل تعداد چھپا رہی ہے کیونکہ وہ ہلاکتوں کی جتنی تعداد بتاتی ہے اس سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگوں کی آخری رسومات ادا کی جارہی ہیں۔ ایک صحافی نے فیس بک پر انتہائی دلدوز انداز میں اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ لکھنؤ شمشان گھاٹ کے وائرل ویڈیو میں ایک چتا میری ماں کی بھی جل رہی ہے، ان کے کلیجے میں موجود کورونا وائرس تو جل کر بھسم ہو گیا لیکن میرے دل میں لگی آگ بجھ نہیں پارہی ہے۔ دل کرتا ہے کچھ دن بے ہوش ہوجاؤں تو شانتی ملے… ابھی میرا ذہن ماؤف ہے لیکن یہ اجتماعی چتائیں دیکھ کر اپنی اماں کے ساتھ ہونے والی انہونی کا ایک ایک پل یا د آ گیا ہے۔ میں 40-50 لاشوں کے درمیان اپنی ماں کو جلانے کا ظلم کرنے والا بدقسمت بیٹا بن گیا۔ اسی درمیان لکھنؤ کے گلالہ گھاٹ کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہو رہی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گھاٹ کے قریب واقع پورا پارک جلی ہوئی لاشوں سے بھرا ہوا ہے۔دوسری طرف بھینسا کنڈ کے چاروں طرف لوہے کی چادریں کھڑی کرنے کی ویڈیو بھی وائرل ہورہی ہے۔ لکھنؤ کے کمشنر اجے کمار دویدی نے انتظامیہ کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایسا اس لیے کیا گیا کہ غیر کووڈ لاشیں لے کر آنے والے لوگ کووڈ شمشان گھاٹ کی طرف نہ جا سکیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ لوگ سازش کے تحت ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال رہے ہیں۔اس درمیان یوپی کانگریس کے سابق صدراور فلم اداکارراج ببر نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ بھینسا کنڈ کی تصویروں نے روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ حکومت ایسے شواہد کو غلط ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ حکومت کو صورت حال پر قابو پانے کے لیے حالانکہ ایک سال ملا لیکن اس نے یہ پورا وقت بیان بازی اور اشتہار بازی میں برباد کردیا۔ غورطلب ہے کہ بھینسا کنڈ کے حوالے سے ابھی حال میں کئی خبریں آئی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ اپنے پیاروں کی آخری رسوم کے لئے متوفیوں کے رشتہ دار صبح سے شام تک انتظار کرتے ہیں جس کی وجہ سے شمشان گھاٹ کے باہر ہر وقت کافی بھیڑ دیکھی جارہی ہے ۔ یہاں کا منظر دیکھ کر وہا ں سے گزرنے والے لوگوں کی روح کانپ اٹھتی ہے مگر یوگی حکومت کی ڈھٹائی پر ان سب کا کوئی اثر پڑتا نظر نہیں آرہا ہے۔