یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی درخواست سپریم کورٹ سے خارج چیف جسٹس آف انڈیا
نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس یو یو للت اور جسٹس جے بی پردی والا پر مشتمل سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے جمعہ کو بھارت کے لئے ایک یکساں سیول کوڈ کا مطالبہ کرتے ہوئے دائر کردہ درخواست کو قبول کرنے سے انکار کردیا تاہم بنچ نے زبانی ریمارک کیا کہ لاء کمیشن آف انڈیا کی رپورٹ جو یہ بیان کی تھی کہ یونیفارم سیول کوڈ نامناسب ہے، ایک فیصلہ کی اساس پر تھی جس پر سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے مکرر شبہ ظاہر کیا گیا تھا اور اس لئے ایک متزلزل بنیاد رکھتا تھا۔
سیاق و سباق کے لئے لاء کمشین آف انڈیا نے اس مسئلہ کا مفصل جائزہ لیتے ہوئے ایک رپورٹ داخل کرنے کی درخواست پر یونیفارم سیول کوڈ کی دوام پذیری کا جائزہ لیا تھا۔ داخل کردہ رپورٹ کے ذریعہ کمیشن نے بھارتی معاشرہ میں موجود تنوع کو تسلیم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا اور رائے دی تھی کہ دئیے گئے مرحلہ میں ایک یونیفارم سیول کوڈ کی نہ ہی ضرورت ہے اور نہ ہی یہ مناسب ہے
اس نے یہ بھی ادعا کیا تھا کہ جب عوامی مباحث میں کئی امور بکثرت لائے جاتے ہیں تو ان کو قانون کے ساتھ نمٹا نہیں جاسکتا اور نہ ہی ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔ ابتداء میں درخواست گزار انوپ بارنول نے جو اصالتاً عدالت سے رجوع ہوئے تھے۔
مدعا پیش کیا کہ جب لاء کمیشن آف انڈیا نے یہ بیان کیا کہ ایک یونیفارم سیول کوڈ کی نہ ہی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ مناسب ہے، اس کے اخذکردہ نتائج بڑی حد تک ریاست بمبئی بمقابلہ وی نرسو اپا مالی (1951 کا ایک فیصلہ جس میں یہ کہا گیا کہ پرسنل لاء آرٹیکل 13 کی توضیح میں قانون نہیں ہے اور اس لئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر پرکھا نہیں جاسکتا ہے) فیصلہ کی اساس پر ہیں۔
درخواست گزار کے مطابق مذکورہ فیصلہ پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے چونکہ سپریم کورٹ نے دو مختلف مواقع پر اس فیصلہ پر اپنے شبہات کا اظہار کیا تھا چیف جسٹس للت نے یہ بھی ریمارک کیا کہ نرسو اپا مالی کا کیس ’پرانا قانون‘ تھا تاہم انہوں نے بیان کیا ”آپ یہ کہتے ہوئے کہ ایک خاص قانون ایک خاص شکل میں لاگو کیا جائے، کچھ اور مانگ کررہے ہیں جو عدالتی حکم نامہ کی نوعیت کا ہے۔